Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: There is Khumus on Rikaz)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام مالک اور امام شافعی نے کہا رکاز جاہلیت کے زمانے کا خزانہ ہے۔ اس میں تھوڑا مال نکلے یا بہت پانچواں حصہ لیا جائے گا۔ اور کان رکاز نہیں ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے کان کے بارے میں فرمایا اس میں اگر کوئی گر کریا کامکرتا ہوا مرجائے تو اس کی جان مفت گئی۔ اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔ اور عمر بن عبدالعزیز خلیفہ کانوں میں سے چالیسواں حصہ لیا کرتے تھے۔ دو سو روپوں میں سے پانچ روپیہ۔ اور امام حسن بصری نے کہاجو رکاز دارالحرب میں پائے تو اس میں سے پانچواں حصہ لیا جائے اور جو امن اور صلح کے ملک میں ملے تو اس میں سے زکوٰۃ چالیسواں حصہ لی جائے۔ اور اگر دشمن کے ملک میں پڑی ہوئی چیز ملے تو اس کو پہنچوادے ( شاید مسلمان کا مال ہو ) اگر دشمن کا مال ہوتو اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرے۔ اور بعض لوگوں نے کہا معدن بھی رکاز ہے جاہلیت کے دفینہ کی طرح کیونکہ عرب لوگ کہتے ہیں ارکزالمعدن جب اس میں سے کوئی چیز نکلے۔ ان کا جواب یہ ہے اگر کسی شخص کو کوئی چیز ہبہ کی جائے یا وہ نفع کمائے یا اس کے باغ میں میوہ بہت نکلے۔ تو کہتے ہیں ارکزت ( حالانکہ یہ چیزیں بالاتفاق رکاز نہیں ہیں ) پھر ان لوگوں نے اپنے قول کے آپ خلاف کیا۔ کہتے ہیں رکاز کا چھپالینا کچھ برا نہیں پانچواں حصہ نہ دے
1499.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جانور کا زخم معاف ہے، کنویں میں گر کر مرجانے میں کوئی معاوضہ نہیں اور کان کابھی یہی حکم ہے، یعنی اس میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے، البتہ دفینہ ملنے پر پانچواں حصہ واجب ہے۔ ‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ دفینہ جاہلیت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، کیونکہ اسے کافر کا مال قرار دیا گیا ہے جسے کوئی مجاہد حاصل کر لے، اس لیے غنیمت کے مال کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں اور ایک حصہ سرکاری طور پر رکھ لیا جاتا ہے، اسی طرح دفینہ جاہلیت کے چار حصے پانے والے کے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرانا ہو گا۔ رکاز کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں، مثلا: اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اس پر سال گزرنے کی شرط ہے یا نہیں؟ وہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر اموال کو شامل ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ تمام تفصیلات دیگر کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ (2) جب کوئی جانور منہ زور ہو کر کسی کو ہلاک کر دے یا نقصان پہنچائے تو مالک پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔ اگر کسی نے کنواں جاری کیا، اس میں کوئی آدمی گر کر مر گیا تو جاری کرنے والا اس کا ضامن نہیں۔ کان میں اگر کوئی مزدور مر جائے تو کان کا مالک یا مزدوری پر لے جانے والا اس سے بری الذمہ ہے۔ (3) امام بخاری نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر "بعض الناس" کے عنوان سے کلام کیا ہے، اکثر مقامات پر ان حضرات پر تنقید مقصود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے، ایسے مقامات کی تعداد پچیس ہے جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں: نمبر شمار اسم الكتاب رقم الباب رقم الحديث 1 الزكاة باب: 66 2 الهبة باب: 36 3 = باب: 37 4 الشهادات باب: 8 5 الوصايا باب: 8 6 الطلاق باب: 25 7 الأيمان والنذور باب: 21 8 الإكراه باب: 4 9 = باب: 7 10 الحيل باب: 3 6956 11 = = 6958 12 = = 6959 13 = باب: 4 6960 14 = = 6961 15 = باب: 9 16 = باب: 11 6968 17 = = 6970 18 = = 6971 19 = باب: 14 20 = = 6976 21 = = 6977 22 = = 6978 23 = باب: 15 6980 24 الأحكام = 25 = باب: 40 7195 یہ پہلا مقام ہے جہاں پر امام بخاری نے ایسے حضرات کا نوٹس لیا ہے جو ڈھٹائی کے ساتھ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں، ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ والله المستعان (4) امام بخاری ؒ کے نزدیک رکاز دور جاہلیت کے وہ مدفون خزانے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں چھپائے تھے اور رکاز کے مفہوم میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اگر دونوں کا مصداق ایک ہوتا تو حدیث کی عبارت بایں الفاظ ہوتی: ''المعدن جبار و فيه الخمس" معدن میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے اور اس میں پانچواں حصہ ادا کرنا ہے‘‘ جبکہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کا معدن پر عطف ڈالا ہے جو مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔ علامہ عینی ؒ نے احناف کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفيه الخمس اس لیے نہیں کہا کہ اس میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ ضمیر کا مرجع بئر ہے یا معدن۔ علامہ عینی کا یہ جواب بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے کیونکہ بئر کا لفظ دور ہے اور معدن کا لفظ قریب ہے، قریب مرجع کو چھوڑ کر مرجع بعید کی طرف ضمیر کیسے لوٹ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ لفظ بئر مونث سماعی ہے مذکر ضمیر مونث مرجع کی طرف کیسے لوٹ سکتی ہے؟ (رفع الالتباس عن بعض الناس، ص:17) احناف نے لغت کے بل بوتے پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ معدن اور رکاز ایک ہیں اور دونوں میں خمس ہے، حالانکہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ ابن اثیر لکھتے ہیں: اہل حجاز کی لغت میں رکاز اس خزانے کو کہتے ہیں جو دور جاہلیت کے وقت سے زمین میں مدفون ہو، البتہ اہل عراق کی لغت میں معدن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن حدیث میں اہل حجاز کی تائید ہے۔ (النھایة :100/2) امت کا تعامل بھی اسی موقف کا مؤید ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے لغوی اعتبار سے جو اعتراض ان حضرات پر کیا ہے وہ اپنی جگہ لاجواب ہے، اس سلسلے میں امام بخاری نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو معدن میں خمس دینے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خمس معدن کے چھپانے کو بھی جائز کہتے ہیں جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔ یہ صریح تناقض ہے۔ اس کا دفاع علامہ عینی نے اس طرح کیا ہے کہ اگر معدن پانے والا محتاج اور فقیر ہو اور بیت المال سے اسے حصہ نہ ملنے کا ظن غالب ہو تو وہ بیت المال سے خمس چھپا کر اپنے آپ پر صرف کر سکتا ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے نقل کیا ہے۔ (عمدةالقاري:563/6) یہ جواب کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ معدن کے چار حصوں سے اس کا فقر زائل نہیں ہو گا بلکہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے اس سے ہی محتاجی دور ہو گی، اس کے علاوہ امام طحاوی ؒ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اگر اپنے گھر میں کوئی کان پا لیتا ہے تو اس میں خمس وغیرہ ادا کرنا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام طحاوی کی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اعتراض اپنی جگہ پر قائم ہے کہ احناف کے ہاں تناقض پایا جاتا ہے۔ (فتح الباري:460/3) ربیعہ بن عبدالرحمٰن کئی لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث ؓ کو معادن قبلیہ الاٹ کی تھیں، ان معادن سے آج تک زکاۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں وصول کیا جاتا۔ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث:3061) اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معادن کی برآمدات پر خمس نہیں بلکہ زکاۃ ہے۔ اگرچہ اس روایت میں انقطاع ہے، تاہم تائید کے لیے اس قسم کی روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ الغرض رکاز سے مراد زمانہ جاہلیت کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر حاصل ہوا ہو اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وصول کیا جاتا ہے جبکہ معدنیات میں زکاۃ ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ حدیث مذکور اس کی واضح دلیل ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1460
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1499
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1499
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1499
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ کان کے متعلق مدفون خزانے کے احکام نہیں ہیں، انہوں نے اپنی تائید میں امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول پیش کیا ہے۔ امام مالک کے قول کو ابو عبید نے اپنی تصنیف "کتاب الاموال" میں متصل سند سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں کہ کان تو کھیتی کی طرح ہے، اس سے زکاۃ وصول کی جائے گی جیسا کہ کھیتی سے پیداوار اٹھاتے وقت زکاۃ لی جاتی ہے، اسے رکاز نہیں کہا جاتا کیونکہ رکاز جاہلیت کے مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جو محنت اور مال خرچ کیے بغیر حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح امام شافعی کے قول کو امام بیہقی نے اپنی کتاب "المعرفة" میں اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ رکاز، دور جاہلیت کے اس مدفون خزانے کو کہتے ہیں جو کسی کی ملک نہ ہو، اس میں سے خمس لیا جاتا ہے۔ (فتح الباری:3/459) امام بخاری رحمہ اللہ نے کان اور رکاز میں فرق واضح کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پیش کیا ہے کہ آپ نے بھی کان اور رکاز کے فرق کو ملحوظ رکھا ہے کہ کان کو ہدر قرار دیا ہے جبکہ رکاز میں خمس کی ادائیگی کو ضروری کہا ہے۔ اس استدلال کی وضاحت ہم آئندہ بیان کریں گے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی معدن کو رکاز سے جدا سمجھا ہے کہ انہوں معاون سے خمس کے بجائے چالیسواں حصہ وصول کیا ہے، یعنی ہر دو سو درہم سے پانچ درہم بطور زکاۃ لیے ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس عمل کو ابو عبید نے "کتاب الاموال" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ امام حسن بصری کے نزدیک رکاز میں کچھ تفصیل ہے: اگر مدفون خزانہ دشمن کی زمین سے ملے تو اس میں خمس واجب ہے اور اگر صلح کی زمین سے دستیاب ہو تو اس سے زکاۃ وصول کی جائے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے اس موقف کو مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ امام ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رکاز کے متعلق یہ تفصیل امام حسن بصری رحمہ اللہ کے علاوہ اور کسی نے بیان نہیں کی۔ (فتح الباری:3/459) امام بخاری رحمہ اللہ نے بعض الناس کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ رکاز اور معدن کا ایک ہی حکم ہے، یعنی ان دونوں میں خمس واجب ہے، بعض الناس سے مراد امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری اور عبدالرحمٰن اوزاعی رحمہم اللہ ہیں، انہوں نے استعمال لغوی سے استدلال کیا ہے کیونکہ عرب کا محاورہ ہے أركز المعدن جبکہ کان سے کوئی چیز نکالی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لغوی اعتبار سے رکاز کا اطلاق معدن پر ہوتا ہے، اس بنا پر دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس استدلال اور موقف پر دو اعتراض کیے ہیں: پہلا اعتراض یہ ہے کہ اگر کسی کو ہبہ کیا جائے یا تجارت میں بہت نفع ہو یا کسی کے پھل بکثرت پیدا ہوں تو اسے بھی محاورہ عرب میں أركزت کہا جاتا ہے، یعنی تو نے رکاز حاصل کیا ہے۔ ایسے حالات میں تو ان تینوں صورتوں میں بھی خمس ہونا چاہیے، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، اس سے پتہ چلا کہ لغوی اشتراک سے حکمی اشتراک قطعی طور پر درست نہیں اس اعتراض کو فقہی زبان میں منقوض الدلیل کہا جاتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال میں تناقض ہے کیونکہ ان کے نزدیک خمس معدن کا چھپانا اور بیت المال کو ادا نہ کرنا جائز ہے۔ پہلے تو خمس کو واجب قرار دیا، پھر کتمان کو جائز قرار دے کر اس کے عدم وجوب کا موقف اختیار کیا، اس اعتراض کو فقہی زبان میں منقوض الحکم کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ خمس اور زکاۃ کے متعلق شریعت کا یہ اصول ہے کہ اگر کسی چیز کے حصول کے لیے محنت نہ اٹھانی پڑے تو اس میں خمس ہے جیسا کہ مال غنیمت میں خمس واجب ہے اور اس کی تحصیل میں محنت کرنا پڑے تو اس سے زکاۃ وصول کی جاتی ہے، رکاز اور معدن میں بھی یہی فرق ہے، معدن سے مال نکالنے کے لیے خاصی محنت درکار ہے، پھر اسے صاف کرنا ہوتا ہے جس پر کافی اخراجات ہوتے ہیں، اس لیے اس میں زکاۃ دینی پڑے گی لیکن رکاز میں تو خزانہ محنت کے بغیر ہی مل جاتا ہے، اس لیے اس میں خمس کو واجب کیا گیا ہے۔ (فتح الباری:3/460)
اور امام مالک اور امام شافعی نے کہا رکاز جاہلیت کے زمانے کا خزانہ ہے۔ اس میں تھوڑا مال نکلے یا بہت پانچواں حصہ لیا جائے گا۔ اور کان رکاز نہیں ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے کان کے بارے میں فرمایا اس میں اگر کوئی گر کریا کامکرتا ہوا مرجائے تو اس کی جان مفت گئی۔ اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔ اور عمر بن عبدالعزیز خلیفہ کانوں میں سے چالیسواں حصہ لیا کرتے تھے۔ دو سو روپوں میں سے پانچ روپیہ۔ اور امام حسن بصری نے کہاجو رکاز دارالحرب میں پائے تو اس میں سے پانچواں حصہ لیا جائے اور جو امن اور صلح کے ملک میں ملے تو اس میں سے زکوٰۃ چالیسواں حصہ لی جائے۔ اور اگر دشمن کے ملک میں پڑی ہوئی چیز ملے تو اس کو پہنچوادے ( شاید مسلمان کا مال ہو ) اگر دشمن کا مال ہوتو اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرے۔ اور بعض لوگوں نے کہا معدن بھی رکاز ہے جاہلیت کے دفینہ کی طرح کیونکہ عرب لوگ کہتے ہیں ارکزالمعدن جب اس میں سے کوئی چیز نکلے۔ ان کا جواب یہ ہے اگر کسی شخص کو کوئی چیز ہبہ کی جائے یا وہ نفع کمائے یا اس کے باغ میں میوہ بہت نکلے۔ تو کہتے ہیں ارکزت ( حالانکہ یہ چیزیں بالاتفاق رکاز نہیں ہیں ) پھر ان لوگوں نے اپنے قول کے آپ خلاف کیا۔ کہتے ہیں رکاز کا چھپالینا کچھ برا نہیں پانچواں حصہ نہ دے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جانور کا زخم معاف ہے، کنویں میں گر کر مرجانے میں کوئی معاوضہ نہیں اور کان کابھی یہی حکم ہے، یعنی اس میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے، البتہ دفینہ ملنے پر پانچواں حصہ واجب ہے۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ دفینہ جاہلیت میں پانچواں حصہ بیت المال کا ہے، کیونکہ اسے کافر کا مال قرار دیا گیا ہے جسے کوئی مجاہد حاصل کر لے، اس لیے غنیمت کے مال کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں اور ایک حصہ سرکاری طور پر رکھ لیا جاتا ہے، اسی طرح دفینہ جاہلیت کے چار حصے پانے والے کے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرانا ہو گا۔ رکاز کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں، مثلا: اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اس پر سال گزرنے کی شرط ہے یا نہیں؟ وہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر اموال کو شامل ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سکوں پر کسی بادشاہ کا نام یا اور کسی شناختی علامت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ یہ تمام تفصیلات دیگر کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ (2) جب کوئی جانور منہ زور ہو کر کسی کو ہلاک کر دے یا نقصان پہنچائے تو مالک پر اس کا کوئی تاوان نہیں۔ اگر کسی نے کنواں جاری کیا، اس میں کوئی آدمی گر کر مر گیا تو جاری کرنے والا اس کا ضامن نہیں۔ کان میں اگر کوئی مزدور مر جائے تو کان کا مالک یا مزدوری پر لے جانے والا اس سے بری الذمہ ہے۔ (3) امام بخاری نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر "بعض الناس" کے عنوان سے کلام کیا ہے، اکثر مقامات پر ان حضرات پر تنقید مقصود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی کھلے بندوں مخالفت کی ہے، ایسے مقامات کی تعداد پچیس ہے جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں: نمبر شمار اسم الكتاب رقم الباب رقم الحديث 1 الزكاة باب: 66 2 الهبة باب: 36 3 = باب: 37 4 الشهادات باب: 8 5 الوصايا باب: 8 6 الطلاق باب: 25 7 الأيمان والنذور باب: 21 8 الإكراه باب: 4 9 = باب: 7 10 الحيل باب: 3 6956 11 = = 6958 12 = = 6959 13 = باب: 4 6960 14 = = 6961 15 = باب: 9 16 = باب: 11 6968 17 = = 6970 18 = = 6971 19 = باب: 14 20 = = 6976 21 = = 6977 22 = = 6978 23 = باب: 15 6980 24 الأحكام = 25 = باب: 40 7195 یہ پہلا مقام ہے جہاں پر امام بخاری نے ایسے حضرات کا نوٹس لیا ہے جو ڈھٹائی کے ساتھ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں، ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ والله المستعان (4) امام بخاری ؒ کے نزدیک رکاز دور جاہلیت کے وہ مدفون خزانے ہیں جو پہلے لوگوں نے زمین میں چھپائے تھے اور رکاز کے مفہوم میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے معدن اور رکاز کا واؤ عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اگر دونوں کا مصداق ایک ہوتا تو حدیث کی عبارت بایں الفاظ ہوتی: ''المعدن جبار و فيه الخمس" معدن میں گر کر مرنے والے کا خون معاف ہے اور اس میں پانچواں حصہ ادا کرنا ہے‘‘ جبکہ ایسا نہیں بلکہ رکاز کا معدن پر عطف ڈالا ہے جو مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔ علامہ عینی ؒ نے احناف کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفيه الخمس اس لیے نہیں کہا کہ اس میں یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ ضمیر کا مرجع بئر ہے یا معدن۔ علامہ عینی کا یہ جواب بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے کیونکہ بئر کا لفظ دور ہے اور معدن کا لفظ قریب ہے، قریب مرجع کو چھوڑ کر مرجع بعید کی طرف ضمیر کیسے لوٹ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ لفظ بئر مونث سماعی ہے مذکر ضمیر مونث مرجع کی طرف کیسے لوٹ سکتی ہے؟ (رفع الالتباس عن بعض الناس، ص:17) احناف نے لغت کے بل بوتے پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ معدن اور رکاز ایک ہیں اور دونوں میں خمس ہے، حالانکہ اہل حجاز کے نزدیک رکاز مدفون خزانے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ ابن اثیر لکھتے ہیں: اہل حجاز کی لغت میں رکاز اس خزانے کو کہتے ہیں جو دور جاہلیت کے وقت سے زمین میں مدفون ہو، البتہ اہل عراق کی لغت میں معدن پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن حدیث میں اہل حجاز کی تائید ہے۔ (النھایة :100/2) امت کا تعامل بھی اسی موقف کا مؤید ہے جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے لغوی اعتبار سے جو اعتراض ان حضرات پر کیا ہے وہ اپنی جگہ لاجواب ہے، اس سلسلے میں امام بخاری نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو معدن میں خمس دینے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خمس معدن کے چھپانے کو بھی جائز کہتے ہیں جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔ یہ صریح تناقض ہے۔ اس کا دفاع علامہ عینی نے اس طرح کیا ہے کہ اگر معدن پانے والا محتاج اور فقیر ہو اور بیت المال سے اسے حصہ نہ ملنے کا ظن غالب ہو تو وہ بیت المال سے خمس چھپا کر اپنے آپ پر صرف کر سکتا ہے، جیسا کہ امام طحاوی نے نقل کیا ہے۔ (عمدةالقاري:563/6) یہ جواب کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ معدن کے چار حصوں سے اس کا فقر زائل نہیں ہو گا بلکہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے اس سے ہی محتاجی دور ہو گی، اس کے علاوہ امام طحاوی ؒ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اگر اپنے گھر میں کوئی کان پا لیتا ہے تو اس میں خمس وغیرہ ادا کرنا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام طحاوی کی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا اعتراض اپنی جگہ پر قائم ہے کہ احناف کے ہاں تناقض پایا جاتا ہے۔ (فتح الباري:460/3) ربیعہ بن عبدالرحمٰن کئی لوگوں سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث ؓ کو معادن قبلیہ الاٹ کی تھیں، ان معادن سے آج تک زکاۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں وصول کیا جاتا۔ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث:3061) اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ معادن کی برآمدات پر خمس نہیں بلکہ زکاۃ ہے۔ اگرچہ اس روایت میں انقطاع ہے، تاہم تائید کے لیے اس قسم کی روایت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ الغرض رکاز سے مراد زمانہ جاہلیت کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر حاصل ہوا ہو اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے وصول کیا جاتا ہے جبکہ معدنیات میں زکاۃ ہے اور ان دونوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ حدیث مذکور اس کی واضح دلیل ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام مالک اور امام محمد بن ادریس شافعی نے فرمایا: رکاز سے مراد دور جاہلیت کا مدفون خزانہ ہے۔ اس کے قلیل وکثیر میں پانچواں حصہ واجب ہے۔ اور معدن(کان) رکاز نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کاارشاد گرامی ہے: "کان میں مرنے والے کاخون معاف ہے اور رکاز، یعنی مدفون خزانے میں پانچواں حصہ ہے۔ "حضرت عمر بن عبدالعزیز معدنیات میں ہر دو سو درہم پر پانچ درہم زکاۃ لیتے تھے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ دارالحرب کے دفینے میں خمس ہے لیکن دارالاسلام کے دفینے میں زکاۃ ہے۔ اگر دشمن کی سرزمین میں کوئی گرمی پڑی چیز پاؤ تو اس کی تشہیر کرو اگر وہ دشمن کی ہے تو اس میں خمس ادا کرنا ہوگا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے دفینے کی طرح معدن بھی رکاز ہے کیونکہ جب اس سے کوئی چیزنکالی جائے تو اس پر اركزالمعدن کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ مگر اس سے کہا جائے گا کہ اس طرح تو جس شخص کو کوئی مال ہبہ کیاجائے، یا اسے بہت نفع حاصل ہویا اس کے باغ کاپھل زیادہ آئے تو اسے کہاجاتا ہے۔ اركزت"تو نے خزانہ پایا"یعنی موہوب، نفع کثیر اور پھلوں میں بھی خمس ہونا چاہیے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر انہوں نے اپنا وضع کردہ ضابطہ خود توڑ دیا اور کہا کہ اس کے چھپانے اور خمس نہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کاکچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is no compensation for one killed or wounded by an animal or by falling in a well, or because of working in mines; but Khumus is compulsory on Rikaz."