باب: زکوٰۃ کے اونٹوں پر حاکم کا اپنے ہاتھ سے داغ دینا
)
Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: Branding the camels given in As-Sadaqa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1502.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں ایک صبح حضرت ابو طلحہ ؓ کے بیٹے عبداللہ ؓ کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ کچھ چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تو میں نے آپ کو اس حالت میں پایا کہ آپ کےہاتھ میں داغ دینے والا ایک آلہ تھا، آپ اس سے زکاۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے۔
تشریح:
(1) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ حیوان کو تکلیف دینے اور اس کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن کسی جانور کو کسی ضرورت کے پیش نظرداغ دینا درست ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت ہے، انہیں داغ دینے کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں دوسرے جانوروں سے شناخت کیا جا سکے، نیز اگر کوئی چوری کرے یا ہانک کر لے جائے تو انہیں واپس لینے میں آسانی ہو۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نشان زدہ جانور اگر فروخت ہو رہا ہو تو صدقہ دینے والے کو پتہ چل جائے تاکہ اسے خرید کر صدقہ واپس لینے کا مرتکب نہ ہو۔ (فتح الباري:462/3) (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچوں کو گھٹی دینا مسنون ہے، حصول برکت تو صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اس لیے کوئی شخص بھی بچے کو گھٹی دے سکتا ہے، تاہم تفاولا کسی نیک آدمی سے گھٹی دلوانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس میں تکلف سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے متعدد طبی فوائد بھی ہیں اور بازار سے گھٹی خرید کر استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1463
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1502
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1502
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1502
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں ایک صبح حضرت ابو طلحہ ؓ کے بیٹے عبداللہ ؓ کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ کچھ چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تو میں نے آپ کو اس حالت میں پایا کہ آپ کےہاتھ میں داغ دینے والا ایک آلہ تھا، آپ اس سے زکاۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ حیوان کو تکلیف دینے اور اس کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن کسی جانور کو کسی ضرورت کے پیش نظرداغ دینا درست ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت ہے، انہیں داغ دینے کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں دوسرے جانوروں سے شناخت کیا جا سکے، نیز اگر کوئی چوری کرے یا ہانک کر لے جائے تو انہیں واپس لینے میں آسانی ہو۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نشان زدہ جانور اگر فروخت ہو رہا ہو تو صدقہ دینے والے کو پتہ چل جائے تاکہ اسے خرید کر صدقہ واپس لینے کا مرتکب نہ ہو۔ (فتح الباري:462/3) (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچوں کو گھٹی دینا مسنون ہے، حصول برکت تو صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اس لیے کوئی شخص بھی بچے کو گھٹی دے سکتا ہے، تاہم تفاولا کسی نیک آدمی سے گھٹی دلوانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس میں تکلف سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے متعدد طبی فوائد بھی ہیں اور بازار سے گھٹی خرید کر استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ ان کی تحنیک کردیں۔ ( یعنی اپنے منہ سے کوئی چیز چباکر ان کے منہ میں ڈال دیں ) میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ تھا اور آپ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگارہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جانور کو ضرورت سے داغ دینا درست ہے اور رد ہوا حنفیہ کا جنہوں نے داغ دینا مکروہ اور اس کو مثلہ سمجھا ہے۔ ( وحیدی ) اور بچوں کے لیے تحنیک بھی سنت ہے کہ کھجور وغیرہ کوئی چیز کسی نیک آدمی کے منہ سے کچلواکر بچے کے منہ میں ڈالی جائے تاکہ اس کو بھی نیک فطرت حاصل ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA) took 'Abdullah bin Abu Talha to Allah's Apostle (ﷺ) to perform Tahnik for him. (Tahnik was a custom among the Muslims that whenever a child was born they used to take it to the Prophet (ﷺ) who would chew a piece of date and put a part of its juice in the child's mouth). I saw the Prophet (ﷺ) and he had an instrument for branding in his hands and was branding the camels of Zakat.