باب:اس بارے میں کہ کسی شخص کے ہمراہ اس کی طہارت کے لیےپانی لےجانا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Getting water carried by somebody else for purification (washing one's private parts))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوالدرداء نے فرمایا کہ تم میں جوتوں والے، پاک پانی والے اور تکیہ والے صاحب نہیں ہیں؟یہ اشارہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرف ہے جو رسول اللہ ﷺ کی جوتیاں، تکیہ اور وضو کا پانی لیے رہتے تھے، اسی مناسبت سے آپ کا یہ خطاب پڑگیا۔
151.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو میں اور ہم میں سے ایک لڑکا آپ کے ساتھ ہو جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کی چھاگل ہوتی تھی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ استنجا کے سلسلے میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے، مثلاً: پانی کی ضرورت ہو تو خدمت گزار سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا نہ تو مخدوم کے لیے استکبار ہے اور نہ خادم ہی کے لیے عار ہے۔ چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا یا بڑوں کا چھوٹوں سے خدمت لینا دونو ں باتیں جائز ہیں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول پیش کیا ہے جس کی وضاحت کچھ یوں ہے: حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں جب سرزمین شام گیا تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: اے اللہ! مجھے کسی نیک آدمی کی صحبت عطا فرما، چنانچہ مجھے سامنے سے ایک بزرگ آتے ہوئے نظر آئے، جب وہ میرے قریب ہوئے تو میں نے اپنے دل میں کہا شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: کوفے کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک، آب طہارت اور تکیہ وغیرہ اٹھانے والے نہیں ہیں؟ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3761) یعنی جب تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے حضرات موجود ہیں تو تمھیں یہ تمنا کیوں پیدا ہوئی کہ مجھے کسی اچھے آدمی کی صحبت میسر آئے۔ 2۔ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ جس لڑکے کا ذکر ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، یہ ضروری نہیں کہ چھوٹی عمر والے ہی پر لفظ "غلام" کا اطلاق ہوتا ہو، بلکہ مجازی طور پر بڑے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا تھا کہ تو ایک عقلمند "غلام" ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3207) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت کے لیے پانی وغیرہ کا اہتمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ روایت میں "غلام" سے مراد ان حضرات میں سے کوئی ہو۔ (فتح الباري: 331/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
153
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
151
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
151
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
151
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوالدرداء نے فرمایا کہ تم میں جوتوں والے، پاک پانی والے اور تکیہ والے صاحب نہیں ہیں؟یہ اشارہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرف ہے جو رسول اللہ ﷺ کی جوتیاں، تکیہ اور وضو کا پانی لیے رہتے تھے، اسی مناسبت سے آپ کا یہ خطاب پڑگیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو میں اور ہم میں سے ایک لڑکا آپ کے ساتھ ہو جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کی چھاگل ہوتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ استنجا کے سلسلے میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے، مثلاً: پانی کی ضرورت ہو تو خدمت گزار سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا نہ تو مخدوم کے لیے استکبار ہے اور نہ خادم ہی کے لیے عار ہے۔ چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا یا بڑوں کا چھوٹوں سے خدمت لینا دونو ں باتیں جائز ہیں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول پیش کیا ہے جس کی وضاحت کچھ یوں ہے: حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں جب سرزمین شام گیا تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: اے اللہ! مجھے کسی نیک آدمی کی صحبت عطا فرما، چنانچہ مجھے سامنے سے ایک بزرگ آتے ہوئے نظر آئے، جب وہ میرے قریب ہوئے تو میں نے اپنے دل میں کہا شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: کوفے کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک، آب طہارت اور تکیہ وغیرہ اٹھانے والے نہیں ہیں؟ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3761) یعنی جب تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے حضرات موجود ہیں تو تمھیں یہ تمنا کیوں پیدا ہوئی کہ مجھے کسی اچھے آدمی کی صحبت میسر آئے۔ 2۔ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ جس لڑکے کا ذکر ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، یہ ضروری نہیں کہ چھوٹی عمر والے ہی پر لفظ "غلام" کا اطلاق ہوتا ہو، بلکہ مجازی طور پر بڑے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا تھا کہ تو ایک عقلمند "غلام" ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3207) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت کے لیے پانی وغیرہ کا اہتمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ روایت میں "غلام" سے مراد ان حضرات میں سے کوئی ہو۔ (فتح الباري: 331/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوالدرداء ؓ نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں نعلین مبارک، آب طہارت اور تکیہ اٹھانے والا خادم موجود نہیں ہے؟
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، وہ عطاء بن ابی میمونہ سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے انس ؓ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ قضاء حاجت کے لیے نکلتے، میں اور ایک لڑکا دونوں آپ ﷺ کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) went to answer the call of nature, I along with another boy from us used to go behind him with a tumbler full of water.