Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Talbiya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1550.
حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نےفرمایا: مجھے معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ کس طرح تلبیہ کہا کرتے تھے (وہ اس طرح ہے): ’’میں حاضر ہوں، اےاللہ! میں حاضر ہوں۔ پھر حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ تیرے ہی لیے ہر قسم کی تعریف ہے اور تو ہی تمام نعمتوں کا مالک ہے۔‘‘ ابو معاویہ نے اعمش سے روایت کرنے میں سفیان ثوری کی متابعت کی ہے۔ شعبہ نے ایک روایت بیان کی ہے جس میں ابو عطیہ کہتے ہیں کہ میں نےحضرت عائشہ ؓ سے سنا ہے۔
تشریح:
(1) تلبیہ کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عزت افزائی کرتا ہے جبکہ اس نے انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور وہ بحیثیت وفد مہمان بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:516/3) (2) تلبیہ کا مطلب حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت پر لبیک کہنا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہیں حکم دیا گیا کہ اب لوگوں میں اس گھر کے حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کی: یا اللہ! روئے زمین پر میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعلان کرنا تیرا کام اور لوگوں تک اس کا پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے بایں الفاظ اعلان کیا: اے لوگو! بیت عتیق کا حج کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان کو زمین و آسمان میں رہنے والے تمام لوگوں نے سنا۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ زمین کے اطراف و اکناف سے لوگ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ حاضر ہوتے ہیں۔ (المستدرك للحاكم:388/2، اس روایت کی سند میں کلام ہے۔) ایک روایت میں ہے کہ جس نے حضرت ابراہیم ؑ کی آواز پر لبیک کہا: وہ ضرور بیت اللہ کا حج کرے گا۔ (فتح الباري:516/3) اس روایت کی سند میں بھی محل نظر ہے۔) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ کرنا جائز ہے، تاہم رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفا کرنا بہتر ہے۔ (3) ابو معاویہ کی متابعت کو امام مسدد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح شعبہ کی روایت کو ابوداود طیالسی نے بیان کیا ہے، اس روایت میں لَا شَرِيكَ لَكَ کے الفاظ نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ابو عطیہ کا حضرت عائشہ ؓ سے سماع ثابت کرنے کے لیے یہ روایت بیان کی ہے۔ (فتح الباري:518/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1509
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1550
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1550
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1550
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نےفرمایا: مجھے معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ کس طرح تلبیہ کہا کرتے تھے (وہ اس طرح ہے): ’’میں حاضر ہوں، اےاللہ! میں حاضر ہوں۔ پھر حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ تیرے ہی لیے ہر قسم کی تعریف ہے اور تو ہی تمام نعمتوں کا مالک ہے۔‘‘ ابو معاویہ نے اعمش سے روایت کرنے میں سفیان ثوری کی متابعت کی ہے۔ شعبہ نے ایک روایت بیان کی ہے جس میں ابو عطیہ کہتے ہیں کہ میں نےحضرت عائشہ ؓ سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) تلبیہ کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عزت افزائی کرتا ہے جبکہ اس نے انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور وہ بحیثیت وفد مہمان بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ (فتح الباري:516/3) (2) تلبیہ کا مطلب حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت پر لبیک کہنا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہیں حکم دیا گیا کہ اب لوگوں میں اس گھر کے حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کی: یا اللہ! روئے زمین پر میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعلان کرنا تیرا کام اور لوگوں تک اس کا پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے بایں الفاظ اعلان کیا: اے لوگو! بیت عتیق کا حج کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔ اس اعلان کو زمین و آسمان میں رہنے والے تمام لوگوں نے سنا۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ زمین کے اطراف و اکناف سے لوگ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ حاضر ہوتے ہیں۔ (المستدرك للحاكم:388/2، اس روایت کی سند میں کلام ہے۔) ایک روایت میں ہے کہ جس نے حضرت ابراہیم ؑ کی آواز پر لبیک کہا: وہ ضرور بیت اللہ کا حج کرے گا۔ (فتح الباري:516/3) اس روایت کی سند میں بھی محل نظر ہے۔) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ کرنا جائز ہے، تاہم رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفا کرنا بہتر ہے۔ (3) ابو معاویہ کی متابعت کو امام مسدد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح شعبہ کی روایت کو ابوداود طیالسی نے بیان کیا ہے، اس روایت میں لَا شَرِيكَ لَكَ کے الفاظ نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ابو عطیہ کا حضرت عائشہ ؓ سے سماع ثابت کرنے کے لیے یہ روایت بیان کی ہے۔ (فتح الباري:518/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے اعمش سے بیان کیا، ان سے عمارہ نے ان سے ابو عطیہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ میں جانتی ہوں کہ کس طرف نبی کریم ﷺ تلبیہ کہتے تھے۔ آپ تلبیہ یوں کہتے تھے لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ( ترجمہ گزرچکا ہے ) اس کی متابعت سفیان ثوری کی طرح ابو معاویہ نے اعمش سے بھی کی ہے۔ اور شعبہ نے کہا کہ مجھ کو سلیمان اعمش نے خبر دی کہ میں نے خیثمہ سے سنا اور انہوں نے ابو عطیہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I know how the Prophet (ﷺ) used to say (Talbiya) and it was: 'Labbaika Allahumma Labbaik, Labbaika la sharika Laka labbaik, Inna-l-hamda wan-ni'mata Laka walmu Lk, La sharika Laka'.