باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Hajj-at-Tamattu', Hajj-al-Qiran, and Hajj-al-Ifrad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1564.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے زمانے میں عمرہ کرنا اس زمین پر بدترین گناہ ہے۔ اور وہ (اپنی طرف سے) ماہ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوکر اس کا نشان مٹ جائے اورصفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ جب رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس حرام کو ختم کرکے اس کے بجائے عمرے کا احرام باندھ لیں۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزری اور کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ !عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگی؟آپ نے فرمایا: ’’سب چیزیں حلال ہوں گی۔‘‘
تشریح:
(1) دورِ جاہلیت میں جنگل کا قانون رائج تھا۔ ہر طرف تحکم اور سینہ زوری تھی۔ اپنی مرضی کو قانون کا درجہ دے لیتے تھے۔ ان کالے قوانین میں ایک قانون یہ تھا کہ وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بدترین گناہ خیال کرتے تھے، پھر اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے بھی کرتے، مثلا: محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لوٹ مار کا بازار گرم کرتے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے دور جاہلیت کی اندھیر نگری کو آغاز حدیث میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کے لیے اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ حج پر کٹے ہوئے اونٹوں کے زخم درست ہو جائیں اور زخموں كے نشانات مٹ کر ان پر اون وغیرہ آ جائے اور صفر کا مہینہ گزر جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اسی عقیدے کی تردید کے لیے ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ قریش اور ان کے مسلک پر چلنے والوں کے اس عقیدے کی تردید ہو کہ اس مہینے میں عمرہ کرنا گناہ ہے۔ (صحیح ابن حبان:31/7) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو حج کا احرام عمرے میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ اس سے مقصود بھی دور جاہلیت میں رائج اعتقاد فاسد کی تردید تھا۔ چونکہ حج میں دو قسم کی حلت تھی: ایک حلت صغریٰ کہ دسویں تاریخ کو رمی کرنے کے بعد آدمی محدود پیمانے پر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا تھا، یعنی بیوی سے جماع کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو جاتا، دوسری حلت کبریٰ، طواف افاضہ کرنے کے بعد حاصل ہوتی کہ اس میں بیوی سے جماع بھی کیا جا سکتا تھا۔ جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو حج کا احرام ختم کر کے عمرے کا احرام باندھنے کے متعلق حکم دیا تو انہوں نے سوال کیا کہ عمرے سے فراغت کے بعد کس قسم کی حلت سے واسطہ پڑے گا؟ آپ نے وضاحت فرمائی کہ فراغت کے بعد تمہارے لیے ہر چیز حلال ہو گئی حتی کہ تم اپنی بیویوں سے جماع بھی کر سکو گے۔ چونکہ صحابہ کرام ؓ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے مانوس نہ تھے، اس لیے انہیں وقتی طور پر یہ بات بہت گراں محسوس ہوئی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1523
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1564
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1564
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1564
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حج کی تین قسمیں ہیں: حج تمتع، حج قران، حج افراد۔ ٭ حج تمتع: اس سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا، پھر عمرہ کر کے احرام کھول دینا اور غیر محرم ہی رہنا حتی کہ آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لیے احرام باندھنا۔ اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔ ٭ حج قِران: اس سے مراد میقات سے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا اور سعی کرنے کے بعد احرام نہ کھولنا بلکہ حالت احرام ہی میں ایام حج کا انتظار کرنا اور اسی احرام سے حج مکمل کرنا۔ اس میں مسنون یہ ہے کہ قربانی ساتھ لے کر جائے۔ ٭ حج افراد: میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسک حج سرانجام دینا حج افراد کہلاتا ہے۔ اس میں قربانی واجب نہیں۔ میقات سے صرف عمرے کے ارادے سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنا، عمرہ مفردہ کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہر قسم کی الگ نیت کرنا ضروری ہے، مبہم نیت کافی نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم حج کی نیت کی جا سکتی ہے، ان کے جواز پر اجماع ہے، البتہ حج تمتع افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قِران کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھا: "اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں قربانی لے کر نہ چلتا بلکہ اسے عمرہ بنا لیتا۔" (مسنداحمد:3/147) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل عمل ہی کی تمنا کر سکتے ہیں، نیز اس میں سہولت بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث میں حج کی تینوں اقسام کو بیان کیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے زمانے میں عمرہ کرنا اس زمین پر بدترین گناہ ہے۔ اور وہ (اپنی طرف سے) ماہ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوکر اس کا نشان مٹ جائے اورصفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ جب رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس حرام کو ختم کرکے اس کے بجائے عمرے کا احرام باندھ لیں۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزری اور کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ !عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگی؟آپ نے فرمایا: ’’سب چیزیں حلال ہوں گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دورِ جاہلیت میں جنگل کا قانون رائج تھا۔ ہر طرف تحکم اور سینہ زوری تھی۔ اپنی مرضی کو قانون کا درجہ دے لیتے تھے۔ ان کالے قوانین میں ایک قانون یہ تھا کہ وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بدترین گناہ خیال کرتے تھے، پھر اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے بھی کرتے، مثلا: محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لوٹ مار کا بازار گرم کرتے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے دور جاہلیت کی اندھیر نگری کو آغاز حدیث میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کے لیے اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ حج پر کٹے ہوئے اونٹوں کے زخم درست ہو جائیں اور زخموں كے نشانات مٹ کر ان پر اون وغیرہ آ جائے اور صفر کا مہینہ گزر جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اسی عقیدے کی تردید کے لیے ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ قریش اور ان کے مسلک پر چلنے والوں کے اس عقیدے کی تردید ہو کہ اس مہینے میں عمرہ کرنا گناہ ہے۔ (صحیح ابن حبان:31/7) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو حج کا احرام عمرے میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ اس سے مقصود بھی دور جاہلیت میں رائج اعتقاد فاسد کی تردید تھا۔ چونکہ حج میں دو قسم کی حلت تھی: ایک حلت صغریٰ کہ دسویں تاریخ کو رمی کرنے کے بعد آدمی محدود پیمانے پر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا تھا، یعنی بیوی سے جماع کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو جاتا، دوسری حلت کبریٰ، طواف افاضہ کرنے کے بعد حاصل ہوتی کہ اس میں بیوی سے جماع بھی کیا جا سکتا تھا۔ جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو حج کا احرام ختم کر کے عمرے کا احرام باندھنے کے متعلق حکم دیا تو انہوں نے سوال کیا کہ عمرے سے فراغت کے بعد کس قسم کی حلت سے واسطہ پڑے گا؟ آپ نے وضاحت فرمائی کہ فراغت کے بعد تمہارے لیے ہر چیز حلال ہو گئی حتی کہ تم اپنی بیویوں سے جماع بھی کر سکو گے۔ چونکہ صحابہ کرام ؓ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے مانوس نہ تھے، اس لیے انہیں وقتی طور پر یہ بات بہت گراں محسوس ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاوس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ عرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ محرم کو صفر بنالیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستالے اور اس پر خوب بال اگ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہوجائے ( یعنی حج کے ایام گزرجائیں ) تو عمرہ حلال ہوتا ہے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھی کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنالیں، یہ حکم ( عرب کے پرانے رواج کی بناپر ) عام صحابہ پر بڑا بھاری گزرا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی۔
حدیث حاشیہ:
ہر آدمی کے دل میں قدیمی رسم ورواج کا بڑا اثر رہتا ہے۔ جاہلیت کے زمانہ سے ان کا یہ اعتقاد چلا آتا تھا کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ ہے، اسی وجہ سے آپ کا یہ حکم ان پر گراں گزرا۔ ایمان افروز تقریر! حدیث ہذا کے ذیل حضرت مولانا وحید الزمان صاحب مرحوم نے ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے جو اہل بصیرت کے مطالعہ کے قابل ہے۔ صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ أي الحل قال حل کلهیعنی یا رسول اللہ! عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی۔ آپ نے فرمایا سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو۔ جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔ دوسری روایت میں ہے کہ بعضے صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ آنحضرت ﷺ کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔ لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے انہوں نے فوراً آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔ پیغمبر ﷺ جو کچھ حکم دیں وہیں اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔ عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے۔ آپ جو بھی حکم فرمائیں اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے۔ جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے۔ ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔ ہم کو مرتے ہی اپنے پیغمبر ﷺ کے ساتھ رہنا ہے۔ اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیرومرشد درویش قطب پیغمبر ؑ کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت بس کرتا ہے۔ سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنیٰ کفش بردار ہیں۔ کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد وعلی أصحابه وارزقنا شفاعته یوم القیامة واحشرنا في زمرة أتباعه وثبتنا علی متابعته والعمل بسنته امین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The people (of the Pre-lslamic Period) used to think that to perform 'Umra during the months of Hajj was one of the major sins on earth. And also used to consider the month of Safar as a forbidden (i.e. sacred) month and they used to say, "When the wounds of the camel's back heal up (after they return from Hajj) and the signs of those wounds vanish and the month of Safar passes away then (at that time) 'Umra is permissible for the one who wishes to perform it." In the morning of the 4th of Dhul-Hijja, the Prophet (ﷺ) and his companions reached Makkah, assuming Ihram for Hajj and he ordered his companions to make their intentions of the Ihram for'Umra only (instead of Hajj) so they considered his order as something great and were puzzled, and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What kind (of finishing) of Ihram is allowed?" The Prophet (ﷺ) replied, "Finish the Ihram completely like a non-Muhrim (you are allowed everything)." ________