باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا تمتع یا قربانی کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس نہ رہتے ہوں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: "This is for him whose family is not present at the Al-Masjid-al-Haram")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1572.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ان سے حج تمتع کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: مہاجرین وانصار اور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے حجۃ الوداع کے موقع پر احرام باندھا اور ہم نے بھی احرام باندھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے حج کے احرام کو احرام عمرہ بنادو مگرجن لوگوں نے قربانی کے جانور کو قلادہ پہنایاہے۔ وہ اپنی پہلی حالت میں رہیں۔‘‘ چنانچہ ہم بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے اپنی بیویوں کے پاس آئے اور دوسرے کپڑے پہن لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اپنی قربانی کے گلے میں قلادہ ڈالا ہے اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں حتیٰ کہ قربانی کا جانوراپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے۔‘‘ پھر آپ نے حکم دیا کہ آٹھ ذوالحجہ کے پچھلے پہر حج کا احرام باندھ لیں۔ اس طرح جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوئے تو آکر بیت اللہ کاطواف کیا، پھر صفا مروہ کی سعی کرنے کے بعد ہمارا حج مکمل ہوگیا اور ہم پر قربانی واجب ہوئی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جسے قربانی کا جانور میسر ہو(وہ قربانی کرے اور ) جسے میسر نہ ہو وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر۔‘‘ یعنی اپنے شہروں کو واپس جاؤ تو وہاں سات روزے رکھو۔ قربانی کے لیے ایک بکری کافی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک سال میں دو عبادتیں، یعنی حج اور عمرے کو جمع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس(حج تمتع) کو اپنی کتاب میں نازل فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے اسے مسنون قرار دیا اور اہل مکہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اسے مباح کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد حرام(مکہ) کے باشندے نہ ہوں۔‘‘ حج کے مہینے جنھیں اللہ تعالیٰ نے کتاب میں ذکر کیا ہے۔ وہ شوال، ذوالعقیدہ اور ذوالحجہ ہیں، جس نے ان مہینوں میں حج تمتع کا احرام باندھا اس پر قربانی یا روزے واجب ہیں رفث کے معنی جماع، فسوق کے معنی گناہ اورجدال کے معنی باہم لڑنا جھگڑنا ہیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمتع مشروع ہے اور یہ منسوخ نہیں ہوا جیسا کہ بعض صحابہ ؓ نے محض اپنے اجتہاد کی وجہ سے لوگوں کو اس سے منع کیا تھا۔ جمہور کے نزدیک حج تمتع کی تین شرطیں ہیں: ٭ حج کے مہینوں میں ایک ہی سفرکے دوران میں حج اور عمرے کو جمع کرے۔ ٭ عمرہ حج سے پہلے ادا کرے۔ ٭ وہ شخص مکہ مکرمہ کا باشندہ نہ ہو۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی رہ گئی تو حج تمتع نہ ہو گا۔ (فتح الباري:549/3) (2) جن لوگوں کو قربانی دینا پڑتی ہے ان کی دو اقسام ہیں: ٭ جو شخص اپنے ہمراہ قربانی کا جانور لایا ہو، وہ عمرے اور حج سے فارغ ہو کر احرام کھولے گا، اسے حج قران کہتے ہیں۔ ٭ جو شخص اپنے ہمراہ قربانی نہ لایا ہو، وہ عمرے سے فارغ ہو کر احرام کھول دیتا ہے، پھر آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھتا ہے، اس کے لیے یہ اجازت ہے کہ اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو دس روزے رکھ لے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
1589
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
1572
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1469.91
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
1572.91
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1497.91
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1531
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1572
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1572
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1572
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ان سے حج تمتع کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: مہاجرین وانصار اور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے حجۃ الوداع کے موقع پر احرام باندھا اور ہم نے بھی احرام باندھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے حج کے احرام کو احرام عمرہ بنادو مگرجن لوگوں نے قربانی کے جانور کو قلادہ پہنایاہے۔ وہ اپنی پہلی حالت میں رہیں۔‘‘ چنانچہ ہم بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے اپنی بیویوں کے پاس آئے اور دوسرے کپڑے پہن لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اپنی قربانی کے گلے میں قلادہ ڈالا ہے اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں حتیٰ کہ قربانی کا جانوراپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے۔‘‘ پھر آپ نے حکم دیا کہ آٹھ ذوالحجہ کے پچھلے پہر حج کا احرام باندھ لیں۔ اس طرح جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوئے تو آکر بیت اللہ کاطواف کیا، پھر صفا مروہ کی سعی کرنے کے بعد ہمارا حج مکمل ہوگیا اور ہم پر قربانی واجب ہوئی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جسے قربانی کا جانور میسر ہو(وہ قربانی کرے اور ) جسے میسر نہ ہو وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر۔‘‘ یعنی اپنے شہروں کو واپس جاؤ تو وہاں سات روزے رکھو۔ قربانی کے لیے ایک بکری کافی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک سال میں دو عبادتیں، یعنی حج اور عمرے کو جمع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس(حج تمتع) کو اپنی کتاب میں نازل فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے اسے مسنون قرار دیا اور اہل مکہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اسے مباح کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد حرام(مکہ) کے باشندے نہ ہوں۔‘‘ حج کے مہینے جنھیں اللہ تعالیٰ نے کتاب میں ذکر کیا ہے۔ وہ شوال، ذوالعقیدہ اور ذوالحجہ ہیں، جس نے ان مہینوں میں حج تمتع کا احرام باندھا اس پر قربانی یا روزے واجب ہیں رفث کے معنی جماع، فسوق کے معنی گناہ اورجدال کے معنی باہم لڑنا جھگڑنا ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمتع مشروع ہے اور یہ منسوخ نہیں ہوا جیسا کہ بعض صحابہ ؓ نے محض اپنے اجتہاد کی وجہ سے لوگوں کو اس سے منع کیا تھا۔ جمہور کے نزدیک حج تمتع کی تین شرطیں ہیں: ٭ حج کے مہینوں میں ایک ہی سفرکے دوران میں حج اور عمرے کو جمع کرے۔ ٭ عمرہ حج سے پہلے ادا کرے۔ ٭ وہ شخص مکہ مکرمہ کا باشندہ نہ ہو۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی رہ گئی تو حج تمتع نہ ہو گا۔ (فتح الباري:549/3) (2) جن لوگوں کو قربانی دینا پڑتی ہے ان کی دو اقسام ہیں: ٭ جو شخص اپنے ہمراہ قربانی کا جانور لایا ہو، وہ عمرے اور حج سے فارغ ہو کر احرام کھولے گا، اسے حج قران کہتے ہیں۔ ٭ جو شخص اپنے ہمراہ قربانی نہ لایا ہو، وہ عمرے سے فارغ ہو کر احرام کھول دیتا ہے، پھر آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھتا ہے، اس کے لیے یہ اجازت ہے کہ اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو دس روزے رکھ لے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابو کامل فضیل بن حسین بصری نے کہا کہ ہم سے ابو معشر یوسف بن یزید براء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن غیاث نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس ؓ نے، ابن عباس ؓ سے حج میں تمتع کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مہاجرین انصار نبی کریم ﷺ کی ازواج اور ہم سب نے احرام باندھا تھا۔ جب ہم مکہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے احرام کو حج اور عمرہ دونوں کے لئے کرلو لیکن جو لوگ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے ہیں۔ ( وہ عمرہ کرنے کے بعد حلال نہیں ہوں گے ) چنانچہ ہم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلی تو اپنااحرام کھول ڈالا اور ہم اپنی بیویوں کے پاس گئے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتا جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ لے ( یعنی قربانی نہ ہولے ) ہمیں ( جنہوں نے ہدی ساتھ نہیں لی تھی ) آپ ﷺ نے آٹھویں تاریخ کی شام کو حکم دیاکہ ہم حج کا احرام باندھ لیں۔ پھر جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوگئے تو ہم نے آکر بیت اللہ کا طواف او رصفا مروہ کی سعی کی، پھر ہمارا حج پورا ہوگیا اور اب قربانی ہم پر لازم ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”جسے قربانی کا جانور میسر ہو ( تو وہ قربانی کرے ) اور اگر کسی کو قربانی کی طاقت نہ ہوتو تین روزے حج میں اور سات دن گھر واپس ہونے پر رکھے۔‘‘ ( قربانی میں ) بکری بھی کافی ہے۔ تو لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں عبادتیں ایک ہی سال میں ایک ساتھ ادا کیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس پر خود عمل کر کے تمام لوگوں کے لئے جائز قرار دیا تھا۔ البتہ مکہ کے باشندوں کا اس سے استثناءہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس رہنے والے نہ ہوں۔“ اور حج کے جن مہینوں کا قرآن میں ذکر ہے وہ شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ ان مہینوں میں جو کوئی بھی تمتع کرے وہ یا قربانی دے یا اگر مقدور نہ ہو تو روزے رکھے۔ اور رفث کا معنی جماع ( یا فحش باتیں ) اور فسوق گناہ اور جدال لوگوں سے جھگڑنا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Abbas said that he has been asked regarding Hajj-at-Tamattu' on which he said, "The Muhajirin and the Ansar and the wives of the Prophet (ﷺ) and we did the same. When we reached Makkah, Allah's Messenger (ﷺ) said, "Give up your intention of doing the Hajj (at this moment) and perform 'Umra, except the one who had garlanded the Hady." So, we performed Tawaf round the Ka'bah and [Sa'y] between As-safa and Al-MArwa, slept with our wives and wore ordinary (stitched) clothes. The Prophet (ﷺ) added, "Whoever has garlanded his Hady is not allowed to finish the Ihram till the Hady has reached its destination (has been sacrificed)". Then on the night of Tarwiya (8th Dhul Hijjah, in the afternoon) he ordered us to assume Ihram for Hajj and when we have performed all the ceremonies of Hajj, we came and performed Tawaf round the Ka'bah and (Sa'y) between As-Safa and Al-Marwa, and then our Hajj was complete, and we had to sacrifice a Hady according to the statement of Allah:"... He must slaughter a Hady such as he can afford, but if he cannot afford it, he should observer Saum (fasts) three days during the Hajj and seven days after his return (to his home)…." (V. 2:196). And the sacrifice of the sheep is sufficient. So, the Prophet (ﷺ) and his Companions honied the two religious deeds, (i.e. Hajj and 'Umra) in one year, for Allah revealed (the permissibility) of such practice in His book and in the Sunna (legal ways) of His Prophet (ﷺ) and rendered it permissible for all the people except those living in Makkah. Allah says: "This is for him whose family is not present at the Al-Masjid-Al-Haram, (i.e. non resident of Makkah)." The months of Hajj which Allah mentioned in His book are: Shawwal, Dhul-Qa'da and Dhul-Hijjah. Whoever performed Hajj-at-Tamattu' in those months, then slaughtering or fasting is compulsory for him. The words: 1. Ar-Rafatha means sexual intercourse. 2. Al-Fasuq means all kinds of sin, and 3. Al-Jidal means to dispute.