Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The residence of the Prophet (saws) in Makkah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1590.
حضرت ابوہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نحر کے اگلے روز فرمایا جبکہ آپ منیٰ میں تشریف فرماتھے: ’’ہم کل خیف بنوکنانہ میں اتریں گے جہاں کفار قریش نے کفر پر ڈٹے رہنے کی قسم کھائی تھی۔‘‘ خیف بنو کنانہ سے مراد محصب ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ قریش اور کنانہ نے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے خلاف قسم اٹھا کر یہ قرارداد پاس کی تھی کہ ان کے ساتھ رشتہ نکاح نہیں کریں گے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کریں گے جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کردیں۔ ایک روایت کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب کے الفاظ ہیں۔ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ بنو مطلب کے الفاظ ہی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حج سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے خیف بنو کنانہ کا انتخاب کیا تھا کیونکہ اسی جگہ کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ناکام کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے عزائم خاک میں ملا کر اپنے رسول ﷺ کو کامیاب فرمایا۔ آپ پر وہ وقت بھی آیا کہ آپ انتہائی مجبور تھے، رات کے وقت چھپ کر مکہ سے نکلے تھے، آج اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ مکرمہ کی حکومت عطا فرمائی تھی۔ (2) جب کفار قریش کو یہ اطلاع ملی کہ حبشہ کے بادشاہ نے مکہ سے ہجرت کرنے والوں کی بہت عزت افزائی کی ہے تو انہیں سخت تکلیف ہوئی۔ رد عمل کے طور پر بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا ایک معاہدہ تحریر کیا کہ وہ ان سے میل جول، خرید وفروخت اور بیاہ شادی نہیں کریں گے جب تک وہ نبی ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں، پھر انہوں نے اس دستاویز کو کعبہ کے اندر لٹکا دیا اور نبوت کے ساتویں سال اس بائیکاٹ کے نتیجے میں بنو ہاشم شعب ابی طالب میں بند ہو کر رہ گئے۔ بنو مطلب بھی ابو طالب کے پاس اس وادی میں چلے گئے۔ تین سال تک ان کے ہاں تاجروں کا آنا جانا بند رہا حتی کہ وہ سخت مشقت میں پڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی خبر دی کہ صحیفے کی ظلم و ستم پر مشتمل باتوں کو دیمک چاٹ گئی ہے، صرف اللہ کا نام باقی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے کفار قریش سے کہا کہ تم اپنے معاہدے کو دیکھو۔ اگر وہ صحیح سالم ہے تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا، چنانچہ جب صحیفہ دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی بات صحیح نکلی۔ اللہ کے نام کے سوا تمام تحریر کو دیمک نے کھا لیا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر کفار قریش بہت نادم ہوئے اور بائیکاٹ ختم کرنے پر مجبور ہو گئے، چنانچہ نبوت کے دسویں سال بنو ہاشم وغیرہ شعب ابی طالب سے باہر آئے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:365/6) (3) امام بخاری ؒ نے بنو عبدالمطلب کے بجائے بنو المطلب کو حقیقت سے زیادہ قریب بتایا ہے کیونکہ عبدالمطلب ہاشم کے بیٹے ہیں اور مطلب ہاشم کے بھائی ہیں اور یہ دونوں عبد مناف کے بیٹے ہیں، الغرض کفار قریش نے بنو عبد مناف کے متعلق معاشی بائیکاٹ کرنے کی قسم اٹھائی تھی اور وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں نہ کہ بنو عبدالمطلب۔ واللہ أعلم۔ (4) واضح رہے کہ اس دستاویز کو لکھنے والا منصور بن عکرمہ عبدری تھا جس کا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1549
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1590
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1590
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1590
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نحر کے اگلے روز فرمایا جبکہ آپ منیٰ میں تشریف فرماتھے: ’’ہم کل خیف بنوکنانہ میں اتریں گے جہاں کفار قریش نے کفر پر ڈٹے رہنے کی قسم کھائی تھی۔‘‘ خیف بنو کنانہ سے مراد محصب ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ قریش اور کنانہ نے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے خلاف قسم اٹھا کر یہ قرارداد پاس کی تھی کہ ان کے ساتھ رشتہ نکاح نہیں کریں گے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کریں گے جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کردیں۔ ایک روایت کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب کے الفاظ ہیں۔ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ بنو مطلب کے الفاظ ہی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حج سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے خیف بنو کنانہ کا انتخاب کیا تھا کیونکہ اسی جگہ کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ناکام کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے عزائم خاک میں ملا کر اپنے رسول ﷺ کو کامیاب فرمایا۔ آپ پر وہ وقت بھی آیا کہ آپ انتہائی مجبور تھے، رات کے وقت چھپ کر مکہ سے نکلے تھے، آج اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ مکرمہ کی حکومت عطا فرمائی تھی۔ (2) جب کفار قریش کو یہ اطلاع ملی کہ حبشہ کے بادشاہ نے مکہ سے ہجرت کرنے والوں کی بہت عزت افزائی کی ہے تو انہیں سخت تکلیف ہوئی۔ رد عمل کے طور پر بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا ایک معاہدہ تحریر کیا کہ وہ ان سے میل جول، خرید وفروخت اور بیاہ شادی نہیں کریں گے جب تک وہ نبی ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں، پھر انہوں نے اس دستاویز کو کعبہ کے اندر لٹکا دیا اور نبوت کے ساتویں سال اس بائیکاٹ کے نتیجے میں بنو ہاشم شعب ابی طالب میں بند ہو کر رہ گئے۔ بنو مطلب بھی ابو طالب کے پاس اس وادی میں چلے گئے۔ تین سال تک ان کے ہاں تاجروں کا آنا جانا بند رہا حتی کہ وہ سخت مشقت میں پڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی خبر دی کہ صحیفے کی ظلم و ستم پر مشتمل باتوں کو دیمک چاٹ گئی ہے، صرف اللہ کا نام باقی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے کفار قریش سے کہا کہ تم اپنے معاہدے کو دیکھو۔ اگر وہ صحیح سالم ہے تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا، چنانچہ جب صحیفہ دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی بات صحیح نکلی۔ اللہ کے نام کے سوا تمام تحریر کو دیمک نے کھا لیا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر کفار قریش بہت نادم ہوئے اور بائیکاٹ ختم کرنے پر مجبور ہو گئے، چنانچہ نبوت کے دسویں سال بنو ہاشم وغیرہ شعب ابی طالب سے باہر آئے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:365/6) (3) امام بخاری ؒ نے بنو عبدالمطلب کے بجائے بنو المطلب کو حقیقت سے زیادہ قریب بتایا ہے کیونکہ عبدالمطلب ہاشم کے بیٹے ہیں اور مطلب ہاشم کے بھائی ہیں اور یہ دونوں عبد مناف کے بیٹے ہیں، الغرض کفار قریش نے بنو عبد مناف کے متعلق معاشی بائیکاٹ کرنے کی قسم اٹھائی تھی اور وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں نہ کہ بنو عبدالمطلب۔ واللہ أعلم۔ (4) واضح رہے کہ اس دستاویز کو لکھنے والا منصور بن عکرمہ عبدری تھا جس کا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ گیارہویں کی صبح کو جب آنحضور ﷺ منیٰ میں تھے تو یہ فرمایا تھا کہ کل ہم خیف بنی کنانہ میں قیام کریں گے جہاں قریش نے کفر کی حمایت کی قسم کھائی تھی۔ آپ کی مراد محصب سے تھی کیونکہ یہیں قریش اور کنانہ نے بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب یا ( راوی نے ) بنو المطلب ( کہا ) کے خلاف حلف اٹھایا تھا کہ جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ان کے حوالہ نہ کردیں، ان کے یہاں بیاہ شادی نہ کریں گے اور نہ ان سے خرید وفروخت کریں گے۔ اور سلامہ بن روح نے عقیل اور یحٰی بن ضحاک سے روایت کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے خبردی، انہو ں نے ( اپنی روایت میں ) بنوہاشم اور بنو المطلب کہا۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے کہا کہ بنو المطلب زیادہ صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں ا س مضمون کی ایک تحریری دستاویز مرتب کی گئی تھی۔ اس کو منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ شل کردیا۔ جب یہ معاہدہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے سنا تو وہ گھبرائے مگر اللہ کی قدرت کہ اس معاہدہ کے کاغذ کو دیمک نے کھالیا۔ جو کعبہ شریف میں لٹکا ہوا تھا۔ کاغذ میں فقط وہ مقام رہ گیا جہاں اللہ کا نام تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی خبر ابوطالب کو دی۔ ابو طالب نے ان کافروں کو کہا میرا بھتیجا یہ کہتا ہے کہ جاکر اس کاغذ کو دیکھو اگر اس کا بیان صحیح نکلے تو اس کی ایذا دہی سے باز آؤ، اگر جھوٹ نکلے تو میں اسے تمہارے حوالے کردوں گا پھر تم کو اختیار ہے۔ قریش نے جاکر دیکھا تو جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا تھا کہ ساری تحریر کو دیمک چاٹ گئی تھی، صرف اللہ کا نام رہ گیا تھا۔ تب وہ بہت شرمندہ ہوئے۔ آنحضرت ﷺ جو اس مقام پر جاکر اترے تو آپ نے اللہ کا شکر کیا اور یاد کیا کہ ایک دن تو وہ تھا۔ ایک آج مکہ پر اسلام کی حکومت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): On the Day of Nahr at Mina, the Prophet (ﷺ) said, "Tomorrow we shall stay at Khaif Bani Kinana where the pagans had taken the oath of Kufr (heathenism)." He meant (by that place) Al-Muhassab where the Quraish tribe and Bani Kinana concluded a contract against Bani Hashim and Bani 'Abdul-Muttalib or Bani Al-Muttalib that they would not intermarry with them or deal with them in business until they handed over the Prophet (ﷺ) to them. ________