باب: اس شخص سے متعلق جس نے صرف دونوں ارکان یمانی کا استلام کیا۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The two Yemenite Corners of the Ka'bah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1608.
حضرت ابو شعثاء سے روایت ہے، انھوں نے کہا: بیت اللہ کے کسی حصے سے کون پرہیز کرتا ہے؟حضرت معاویہ ؓ تمام ارکان کعبہ کا استلام کرتے تھے تو ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ان دوکونوں (رکن شامی اور رکن عراقی ) کو بوسہ نہیں دیا جا تا۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز متروک نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے۔
تشریح:
(1) بیت اللہ کے چار کونے ہیں۔ جس کونے میں حجراسود نصب ہے اس کی دو فضیلتیں ہیں: ایک تو اس میں جنت کا پتھر نصب ہے جسے حجراسود کہا جاتا ہے۔ دوسرا وہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر ہے۔ اس بنا پر اسے بوسہ دیا جاتا ہے۔ اگر بوسہ ممکن نہ ہو تو استلام اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اشارہ کیا جاتا ہے۔ دوسرا کونا رکن یمانی ہے۔ اس کے لیے یہی ایک برتری ہے کہ وہ قواعد ابراہیم ؑ پر ہے، اس لیے اسے چوما تو نہیں جاتا، البتہ اس کا استلام مشروع ہے۔ دوسرے دو کونے قواعد ابراہیم ؑ پر نہیں ہیں، اس لیے ان کا بوسہ یا استلام مشروع نہیں، البتہ بعض صحابہ کرام ؓ بیت اللہ کے چاروں کونوں کو استلام کرتے تھے۔ ان میں حضرت امیر معاویہ ؓ بھی ہیں جن کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ (2) تفصیلی روایت بایں الفاظ ہے: ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ حج کیا۔ حضرت امیر معاویہ بیت اللہ کے ہر کونے کا استلام کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ انہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجراسود اور رکن یمانی کا استلام کیا ہے۔ ان کے جواب میں حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کی کوئی چیز متروک نہیں ہے۔ (فتح الباري:597/3) حضرت امیر معاویہ ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کی بنیاد ان کے ذاتی فہم پر ہے مگر رسول اللہ ﷺ کا عمل اس پر مقدم ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس کا خوبصورت جواب دیا ہے کہ ہم ایسا بیت اللہ کو متروک سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ اتباع سنت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اگر اس کونے کا استلام نہ کرنا ترک بیت اللہ ہے تو باقی کونوں کو نہ چھونا بھی ترک میں آئے گا، حالانکہ ان کا استلام نہ کرنے کو کوئی بھی ترک نہیں کہتا، اس لیے عمل اور ترک دونوں میں اتباع سنت کا جذبہ کارفرما ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:599/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1567
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1608
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1608
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1608
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابو شعثاء سے روایت ہے، انھوں نے کہا: بیت اللہ کے کسی حصے سے کون پرہیز کرتا ہے؟حضرت معاویہ ؓ تمام ارکان کعبہ کا استلام کرتے تھے تو ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ان دوکونوں (رکن شامی اور رکن عراقی ) کو بوسہ نہیں دیا جا تا۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز متروک نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بیت اللہ کے چار کونے ہیں۔ جس کونے میں حجراسود نصب ہے اس کی دو فضیلتیں ہیں: ایک تو اس میں جنت کا پتھر نصب ہے جسے حجراسود کہا جاتا ہے۔ دوسرا وہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر ہے۔ اس بنا پر اسے بوسہ دیا جاتا ہے۔ اگر بوسہ ممکن نہ ہو تو استلام اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اشارہ کیا جاتا ہے۔ دوسرا کونا رکن یمانی ہے۔ اس کے لیے یہی ایک برتری ہے کہ وہ قواعد ابراہیم ؑ پر ہے، اس لیے اسے چوما تو نہیں جاتا، البتہ اس کا استلام مشروع ہے۔ دوسرے دو کونے قواعد ابراہیم ؑ پر نہیں ہیں، اس لیے ان کا بوسہ یا استلام مشروع نہیں، البتہ بعض صحابہ کرام ؓ بیت اللہ کے چاروں کونوں کو استلام کرتے تھے۔ ان میں حضرت امیر معاویہ ؓ بھی ہیں جن کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ (2) تفصیلی روایت بایں الفاظ ہے: ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ حج کیا۔ حضرت امیر معاویہ بیت اللہ کے ہر کونے کا استلام کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ انہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجراسود اور رکن یمانی کا استلام کیا ہے۔ ان کے جواب میں حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کی کوئی چیز متروک نہیں ہے۔ (فتح الباري:597/3) حضرت امیر معاویہ ؓ نے جو کچھ فرمایا اس کی بنیاد ان کے ذاتی فہم پر ہے مگر رسول اللہ ﷺ کا عمل اس پر مقدم ہے۔ امام شافعی ؒ نے اس کا خوبصورت جواب دیا ہے کہ ہم ایسا بیت اللہ کو متروک سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ اتباع سنت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اگر اس کونے کا استلام نہ کرنا ترک بیت اللہ ہے تو باقی کونوں کو نہ چھونا بھی ترک میں آئے گا، حالانکہ ان کا استلام نہ کرنے کو کوئی بھی ترک نہیں کہتا، اس لیے عمل اور ترک دونوں میں اتباع سنت کا جذبہ کارفرما ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:599/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور محمد بن بکرنے کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبردی، انہوں نے کہا مجھ کو عمروبن دینار نے خبردی کہ ابوالشعثاء نے کہا بیت اللہ کے کسی بھی حصہ سے بھلا کون پرہیز کرسکتا ہے۔ اور معاویہ ؓ چاروں رکنوں کا استلام کرتے تھے، اس پر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ان سے کہا کہ ہم ان دو ارکان شامی اور عراقی کا استلام نہیں کرتے تو معاویہ ؓ نے فرمایا کہ بیت اللہ کا کوئی جزء ایسا نہیں جسے چھوڑ دیا جائے اور عبداللہ بن زبیر ؓ بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے۔