باب: اس شخص سے متعلق جس نے صرف دونوں ارکان یمانی کا استلام کیا۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The two Yemenite Corners of the Ka'bah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1609.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔
تشریح:
(1) اکثر محدثین کا موقف ہے کہ شامی ارکان کا استلام مسنون نہیں۔ استلام کے معنی ہاتھ سے مس کرنا ہیں۔ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اس کے متعلق جب امیر معاویہ ؓ سے گفتگو کرتے تو درج ذیل آیت پڑھتے: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الأحزاب21:33)’’تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (2) واضح رہے کہ شعبہ نے امام مسلم کی روایت میں اس واقعے کو بالکل برعکس بیان کیا ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے اور امیر معاویہ ؓ انہیں اس سے روکتے تھے، حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔ (فتح الباري:598/3) مذکورہ روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بھی بیان ہوا ہے کہ وہ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے تھے۔ اس کے متعلق تفصیل بایں طور ہے کہ جب عبداللہ بن زبیر اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور حطیم کو بیت اللہ میں شامل کر دیا، نیز رکن شامی اور عراقی دونوں کو قواعد ابراہیم کے مطابق استوار کیا تو تنعیم گئے، وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا اور بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کیا، پھر آپ کی شہادت تک لوگ بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک معقول وجہ کے پیش نظر طواف کرتے وقت تمام کونوں کا استلام کیا تھا، لیکن حجاج بن یوسف نے جب بیت اللہ کو پہلی بنیادوں پر تعمیر کر دیا تو پھر چاروں کونوں کے استلام کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:598/3) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1568
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1609
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1609
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1609
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اکثر محدثین کا موقف ہے کہ شامی ارکان کا استلام مسنون نہیں۔ استلام کے معنی ہاتھ سے مس کرنا ہیں۔ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اس کے متعلق جب امیر معاویہ ؓ سے گفتگو کرتے تو درج ذیل آیت پڑھتے: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الأحزاب21:33)’’تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (2) واضح رہے کہ شعبہ نے امام مسلم کی روایت میں اس واقعے کو بالکل برعکس بیان کیا ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے اور امیر معاویہ ؓ انہیں اس سے روکتے تھے، حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔ (فتح الباري:598/3) مذکورہ روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بھی بیان ہوا ہے کہ وہ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے تھے۔ اس کے متعلق تفصیل بایں طور ہے کہ جب عبداللہ بن زبیر اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور حطیم کو بیت اللہ میں شامل کر دیا، نیز رکن شامی اور عراقی دونوں کو قواعد ابراہیم کے مطابق استوار کیا تو تنعیم گئے، وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا اور بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کیا، پھر آپ کی شہادت تک لوگ بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک معقول وجہ کے پیش نظر طواف کرتے وقت تمام کونوں کا استلام کیا تھا، لیکن حجاج بن یوسف نے جب بیت اللہ کو پہلی بنیادوں پر تعمیر کر دیا تو پھر چاروں کونوں کے استلام کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:598/3) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید طیالسی نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے ان کے والد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو صرف دونوں یمانی ارکان کا استلام کرتے دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
کعبہ کے چار کونے ہیں حجر اسود، رکن یمانی، رکن شامی اور رکن عراقی۔ حجر اسود اور رکن یمانی کو رکنین یمانیین اور شامی اور عراقی کو شامیین کہتے ہیں۔ حجر اسود کے علاوہ رکن یمانی کو چھونا یہی رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ رہا ہے۔ اسی پر عمل درآمد ہے۔ حضرت معاویہ ؓ نے جو کچھ فرمایا ان کی رائے تھی مگر فعل نبوی مقدم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin 'Abdullah that his father said: "I have not seen the Prophet (ﷺ) touching except the two Yemenite Corners (i.e. the ones facing Yemen)."