Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The Tawaf of women and men)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1618.
ابن جریج سے روایت ہے، کہ حضرت عطاء نے کہا: جب ابن ہشام نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے روک دیا تو میں نے کہا کہ تو انھیں کیوں روکتا ہے، حالانکہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے مردوں کے ساتھ طواف کیا ہے؟(راوی حدیث ابن جریج کہتا ہے: )میں نے کہا: کیا پردے کی آیت اترنے سے پہلے یا بعد؟ عطاء کہنے لگے: میری عمر کی قسم!میں نے انھیں آیت حجاب کے نزول کے بعد پایا ہے۔ اس پر ابن جریج نے کہا : عورتیں مردوں کے ساتھ کس طرح مل جل جاتی تھیں؟ انھوں نے فرمایا: اختلاط نہیں ہو تا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ مردوں سے الگ تھلگ ہو کر طواف کرتی تھیں، ان سے اختلاط نہ کرتی تھیں۔ ایک عورت نے ان سے عرض کیا: اے اُم المومنین ! چلیں حجر اسود کو بوسہ دیں۔ انھوں نے فرمایا: تم جاؤ اور ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین رات کے وقت اس حالت میں نکلتیں کہ پہچانی نہ جاتی تھیں اور مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں، البتہ جب وہ بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتیں تو کھڑی رہتیں، مردوں کو باہر نکالا جاتا (پھر وہ بیت اللہ میں داخل ہوتیں) میں اور عبید بن عمیر حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جبکہ وہ ثبیر پہاڑ پرمقیم تھیں۔ میں نے عرض کیا: اس وقت ان کا پردہ کیا ہوتا تھا؟فرمایا: وہ ایک ترکی خیمے میں ہوتی تھیں جس کے آگےایک پردہ لٹکا ہوتا تھا۔ ہمارے اور ان کے درمیان ان کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ نے گلابی رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رات کے وقت عورتیں، مردوں کے ہمراہ طواف کر سکتی ہیں، وہ بھی اس صورت میں کہ انہیں شناخت نہ کیا جا سکے، البتہ بیت اللہ میں ان کے ہمراہ داخل نہ ہوں۔ (2) مطاف کا دائرہ وسیع تھا، حضرت عائشہ ؓ ایک طرف الگ رہ کر طواف کرتیں اور مرد بھی طواف کرتے رہتے جبکہ ابن ہشام نے بالکل اس طرح طواف کرنے پر پابندی لگا دی تھی کہ مردوں کے طواف کرتے وقت عورتیں طواف نہ کریں۔ آج کل تو حکومت سعودیہ نے مطاف کو اس قدر وسیع اور آرام دہ بنا دیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اب تو عورتوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں، پھر بھی بعض لوگ اپنی عورتوں کو مردوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ عورتوں کو مردوں سے الگ رکھیں۔ (3) بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ عورتیں مردوں کے ہمراہ طواف کر سکتی ہیں لیکن ان کا اختلاط ممنوع ہے، ان سے ایک طرف ہو کر انہیں طواف کرنے کی اجازت ہے۔ ایسا کرنا محض تکلف ہے کہ جب مرد طواف کریں تو عورتوں کے لیے اور جب عورتیں طواف کریں تو مردوں کے لیے طواف کرنے پر پابندی ہو، البتہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط کسی حالت میں درست نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1576
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1618
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1618
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1618
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
عورتوں کے متعلق طواف کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ مردوں کے ساتھ مخلوط طور پر طواف کریں یا ان سے علیحدہ ایک طرف ہٹ کر کریں یا ان سے الگ تھلگ اکیلی طواف کریں؟
ابن جریج سے روایت ہے، کہ حضرت عطاء نے کہا: جب ابن ہشام نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے روک دیا تو میں نے کہا کہ تو انھیں کیوں روکتا ہے، حالانکہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے مردوں کے ساتھ طواف کیا ہے؟(راوی حدیث ابن جریج کہتا ہے: )میں نے کہا: کیا پردے کی آیت اترنے سے پہلے یا بعد؟ عطاء کہنے لگے: میری عمر کی قسم!میں نے انھیں آیت حجاب کے نزول کے بعد پایا ہے۔ اس پر ابن جریج نے کہا : عورتیں مردوں کے ساتھ کس طرح مل جل جاتی تھیں؟ انھوں نے فرمایا: اختلاط نہیں ہو تا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ مردوں سے الگ تھلگ ہو کر طواف کرتی تھیں، ان سے اختلاط نہ کرتی تھیں۔ ایک عورت نے ان سے عرض کیا: اے اُم المومنین ! چلیں حجر اسود کو بوسہ دیں۔ انھوں نے فرمایا: تم جاؤ اور ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین رات کے وقت اس حالت میں نکلتیں کہ پہچانی نہ جاتی تھیں اور مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں، البتہ جب وہ بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتیں تو کھڑی رہتیں، مردوں کو باہر نکالا جاتا (پھر وہ بیت اللہ میں داخل ہوتیں) میں اور عبید بن عمیر حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جبکہ وہ ثبیر پہاڑ پرمقیم تھیں۔ میں نے عرض کیا: اس وقت ان کا پردہ کیا ہوتا تھا؟فرمایا: وہ ایک ترکی خیمے میں ہوتی تھیں جس کے آگےایک پردہ لٹکا ہوتا تھا۔ ہمارے اور ان کے درمیان ان کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ نے گلابی رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رات کے وقت عورتیں، مردوں کے ہمراہ طواف کر سکتی ہیں، وہ بھی اس صورت میں کہ انہیں شناخت نہ کیا جا سکے، البتہ بیت اللہ میں ان کے ہمراہ داخل نہ ہوں۔ (2) مطاف کا دائرہ وسیع تھا، حضرت عائشہ ؓ ایک طرف الگ رہ کر طواف کرتیں اور مرد بھی طواف کرتے رہتے جبکہ ابن ہشام نے بالکل اس طرح طواف کرنے پر پابندی لگا دی تھی کہ مردوں کے طواف کرتے وقت عورتیں طواف نہ کریں۔ آج کل تو حکومت سعودیہ نے مطاف کو اس قدر وسیع اور آرام دہ بنا دیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اب تو عورتوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں، پھر بھی بعض لوگ اپنی عورتوں کو مردوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ عورتوں کو مردوں سے الگ رکھیں۔ (3) بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ عورتیں مردوں کے ہمراہ طواف کر سکتی ہیں لیکن ان کا اختلاط ممنوع ہے، ان سے ایک طرف ہو کر انہیں طواف کرنے کی اجازت ہے۔ ایسا کرنا محض تکلف ہے کہ جب مرد طواف کریں تو عورتوں کے لیے اور جب عورتیں طواف کریں تو مردوں کے لیے طواف کرنے پر پابندی ہو، البتہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط کسی حالت میں درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام بخاری ؓ نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا اور انہیں عطاء نے خبردی کہ جب ابن ہشام ( جب وہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے مکہ کا حاکم تھا ) نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کردیا تو اس سے انہوں نے کہا کہ تم کس دلیل پر عورتوں کو اس سے منع کررہے ہو؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ کی پاک بیویوں نے مردوں کے ساتھ طواف کیا تھا۔ ابن جریج نے پوچھا یہ پردہ ( کی آیت نازل ہونے ) کے بعد کا واقعہ ہے یا اس سے پہلے کا؟ انہوں نے کہا میری عمر کی قسم ! میں نے انہیں پردہ ( کی آیت نازل ہونے ) کے بعد دیکھا۔ اس پر ابن جریج نے پوچھا کہ پھر مرد عورت مل جل جاتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اختلاط نہیں ہوتا تھا، عائشہ ؓ مردوں سے الگ رہ کر ایک الگ کونے میں طواف کرتی تھیں، ان کے ساتھ مل کر نہیں کرتی تھیں۔ ایک عورت ( وقرہ نامی ) نے ان سے کہا ام المومنین ! چلئے ( حجر اسود کو ) بوسہ دیں۔ تو آپ نے انکار کردیا اور کہا تو جا چوم، میں نہیں چومتی اور ازواج مطہرات رات میں پردہ کرکے نکلتی تھیں کہ پہچانی نہ جاتیں اور مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں۔ البتہ عورتیں جب کعبہ کے اندر جانا چاہتیں تو اندر جانے سے پہلے باہر کھڑی ہوجاتیں اور مرد باہر آجاتے ( تو وہ اندر جاتیں ) میں اور عبید بن عمیر عائشہ ؓ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ ثبیر ( پہاڑ ) پر ٹھہری ہوئی تھیں، ( جو مزدلفہ میں ہے ) ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ اس وقت پردہ کس چیز سے تھا؟ عطاء نے بتایا کہ ایک ترکی قبہ میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ اس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہمارے اور ان کے درمیان اس کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ان کے بدن پر ایک گلابی رنگ کا کرتہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Juraij said, "`Ata informed us that when Ibn Hisham forbade women to perform Tawaf with men he said to him, 'How do you forbid them while the wives of the Prophet (ﷺ) used to perform Tawaf with the men?' I said, 'Was this before decreeing of the use of the veil or after it? `Ata took an oath and said, 'I saw it after the order of veil.' I said, 'How did they mix with the men?' `Ata said, 'The women never mixed with the men, and `A'ishah used to perform Tawaf separately and never mixed with men. Once it happened that `A'ishah was performing the Tawaf and woman said to her, 'O Mother of believers! Let us touch the Black stone.' `A'ishah said to her, 'Go yourself,' and she herself refused to do so. The wives of the Prophet (ﷺ) used to come out in night, in disguise and used to perform Tawaf with men. But whenever they intended to enter the Ka`bah, they would stay outside till the men had gone out. I and `Ubaid bin `Umair used to visit `A'ishah while she was residing at Jauf Thabir." I asked, "What was her veil?" `Ata said, "She was wearing an old Turkish veil, and that was the only thing (veil) which was screen between us and her. I saw a pink cover on her."