باب: دونوں پاؤں دھونا چاہیئے اور قدموں پر مسح نہ کرنا چاہیئے
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Washing both feet, and it is not sufficient to pass wet hands over the feet)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
163.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ نے ہم کو پا لیا جبکہ عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور جلدی جلدی پاؤں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ آپ نے دو یا تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر کہا: ’’ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے۔ ان پر مسح کرنا نہیں دلیل میں جو روایت پیش فرمائی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پاؤں دھونے کے بجائے جلدی جلدی ان پر مسح کرنے لگے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک ایڑیوں کے متعلق وعید سنائی کہ یہ ایڑیاں جہنم میں جائیں گی اگر پاؤں کا وظیفہ مسح ہوتا تو مسح کرتے وقت کسی کے نزدیک بھی استیعاب ضروری نہیں ہے، اس لیے اس قدر سخت وعید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وظیفہ تو ادا ہو چکا تھا لیکن چونکہ پاؤں کا وظیفہ دھونا ہے اور اس میں استیعاب (پورے پاؤں پر ہاتھ پھیرنا) ضروری ہے لہٰذا اس کوتاہی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وعید شدید سنائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خالی پاؤں کا دھونا ضروری ہے مسح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ استدلال اس صورت میں ہے کہ (تَمسَحُ) کے معنی حقیقی مسح کیا جائے لیکن اگر یہ معنی کیے جائیں کہ ہم اپنے ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں پر پھیرنے لگے جس سے ایڑیوں کے کچھ حصے خشک رہ گئے تو بھی استدلال صحیح ہے کہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا ہے اور اس میں استیعاب ہے یعنی ان کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہے۔ 2۔ اس عنوان کو یہاں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں استنثار کا بیان تھا کہ ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے کپڑے سے صاف کر لینا کافی نہیں کیونکہ ہم لوگ احکام شریعت کے پابند ہیں اپنی طرف سے ان میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے لہٰذا اگر شریعت نے کسی عضو کے متعلق غسل ضروری قرار دیا ہے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم یہ سوچ کر کہ مقصود تو صفائی ہے لہٰذا دھونے کے بجائے کپڑے سے صفائی کر لیں ایسا کرنا جائز نہیں۔ جس طرح خالی پاؤں کو دھونا ضروری ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے نیز ناک بدن کی اعلیٰ جانب ہے اور پاؤں بدن کی نچلی جانب ہے اس لیے ناک کے بعد قدم کا وظیفہ بتایا گیا ہے۔ 3۔ اس روایت سے شیعہ حضرات کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کا وظیفہ غسل نہیں بلکہ مسح ہے اور وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لوگوں کی ایڑیاں نجاست آلود تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھونے کا حکم دیا لیکن ہمیں ان حضرات کی عقل و فکر پر حیرت ہوتی ہے۔ اگر ایک دو آدمیوں کی ایڑیاں نجاست آلود ہوتیں تو بات بن سکتی تھی کیا تمام حضرات کی ایڑیوں پر نجاست لگی ہوئی تھی اور انھیں اس کے دور کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ حالانکہ نجاست کا ازالہ حدث کے ازالے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پاک کرنے کا حکم نہیں فرمایا کہ تمھاری ایڑیاں نجاست آلود ہیں انھیں دھو کر پاک کرو۔ دراصل ان حضرات نے پورے دین کا ڈھانچہ از سر نو تشکیل دیا ہے اذان، اوقات نماز، طریقہ نماز، زکاۃ، الغرض ہر چیز الگ وضع کر رکھی ہے حتی کہ موجودہ قرآن کریم کے متعلق ان کے ہاں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
165
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
163
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
163
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
163
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ نے ہم کو پا لیا جبکہ عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور جلدی جلدی پاؤں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ آپ نے دو یا تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر کہا: ’’ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا وظیفہ انھیں دھونا ہے۔ ان پر مسح کرنا نہیں دلیل میں جو روایت پیش فرمائی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پاؤں دھونے کے بجائے جلدی جلدی ان پر مسح کرنے لگے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک ایڑیوں کے متعلق وعید سنائی کہ یہ ایڑیاں جہنم میں جائیں گی اگر پاؤں کا وظیفہ مسح ہوتا تو مسح کرتے وقت کسی کے نزدیک بھی استیعاب ضروری نہیں ہے، اس لیے اس قدر سخت وعید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وظیفہ تو ادا ہو چکا تھا لیکن چونکہ پاؤں کا وظیفہ دھونا ہے اور اس میں استیعاب (پورے پاؤں پر ہاتھ پھیرنا) ضروری ہے لہٰذا اس کوتاہی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وعید شدید سنائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خالی پاؤں کا دھونا ضروری ہے مسح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ استدلال اس صورت میں ہے کہ (تَمسَحُ) کے معنی حقیقی مسح کیا جائے لیکن اگر یہ معنی کیے جائیں کہ ہم اپنے ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں پر پھیرنے لگے جس سے ایڑیوں کے کچھ حصے خشک رہ گئے تو بھی استدلال صحیح ہے کہ پاؤں کو اچھی طرح دھونا ہے اور اس میں استیعاب ہے یعنی ان کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہے۔ 2۔ اس عنوان کو یہاں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے باب میں استنثار کا بیان تھا کہ ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے کپڑے سے صاف کر لینا کافی نہیں کیونکہ ہم لوگ احکام شریعت کے پابند ہیں اپنی طرف سے ان میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتے لہٰذا اگر شریعت نے کسی عضو کے متعلق غسل ضروری قرار دیا ہے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم یہ سوچ کر کہ مقصود تو صفائی ہے لہٰذا دھونے کے بجائے کپڑے سے صفائی کر لیں ایسا کرنا جائز نہیں۔ جس طرح خالی پاؤں کو دھونا ضروری ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے نیز ناک بدن کی اعلیٰ جانب ہے اور پاؤں بدن کی نچلی جانب ہے اس لیے ناک کے بعد قدم کا وظیفہ بتایا گیا ہے۔ 3۔ اس روایت سے شیعہ حضرات کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاؤں کا وظیفہ غسل نہیں بلکہ مسح ہے اور وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لوگوں کی ایڑیاں نجاست آلود تھیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھونے کا حکم دیا لیکن ہمیں ان حضرات کی عقل و فکر پر حیرت ہوتی ہے۔ اگر ایک دو آدمیوں کی ایڑیاں نجاست آلود ہوتیں تو بات بن سکتی تھی کیا تمام حضرات کی ایڑیوں پر نجاست لگی ہوئی تھی اور انھیں اس کے دور کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ حالانکہ نجاست کا ازالہ حدث کے ازالے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پاک کرنے کا حکم نہیں فرمایا کہ تمھاری ایڑیاں نجاست آلود ہیں انھیں دھو کر پاک کرو۔ دراصل ان حضرات نے پورے دین کا ڈھانچہ از سر نو تشکیل دیا ہے اذان، اوقات نماز، طریقہ نماز، زکاۃ، الغرض ہر چیز الگ وضع کر رکھی ہے حتی کہ موجودہ قرآن کریم کے متعلق ان کے ہاں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے، وہ ابوبشر سے، وہ یوسف بن ماہک سے، وہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ ﷺ نے ہم کو پا لیا اور عصر کا وقت آ پہنچا تھا۔ ہم وضو کرنے لگے اور (اچھی طرح پاؤں دھونے کی بجائے جلدی میں) ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا’’ ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے‘‘ دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
اس میں روافض کا رد ہے جو قدموں پر بلا موزوں کے مسح کے قائل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب سے ثابت کیا ہے کہ جب موزے پہنے ہوئے نہ ہوں تو قدموں کا دھونا فرض ہے جیسا کہ آیت وضو میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاؤں کو بھی دوسرے اعضاءکی طرح دھونا چاہئیے اور اس طرح پر کہ کہیں سے کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) remained behind us on a journey. He joined us while we were performing ablution for the 'Asr prayer which was over-due and we were just passing wet hands over our feet (not washing them thoroughly) so he addressed us in a loud voice saying twice orthriae, "Save your heels from the fire."