Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Tawaf with ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1641.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے حج کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے مجھے آگاہ فرمایا۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ وضو کیا، پھر بیت اللہ کاطواف کیا۔ محض طواف کرنے ہی سے آپ کا عمرہ مکمل نہیں ہواتھا۔ اس کے بعدحضرت ابو بکر ؓ نے حج کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ بیت اللہ کا طواف تھا، پھر یہ عمرہ نہ ہوا۔ اس کے بعد حضرت عمرفاروق ؓ نے بھی اسی طرح کیا۔ (حضرت عروہ نے کہا) پھر حضرت عثمان ؓ نے حج کیا۔ میں نے ان کو سب سے پہلے جو کام کرتے دیکھا وہ بیت اللہ کا طواف تھا، پھر یہ عمرہ نہ بنا۔ اس کے بعد امیر معاویہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ (نے بھی ایسے ہی کیا) اسکے بعد میں نے(اپنے والد گرامی) حضرت زبیر ؓ کے ساتھ حج کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر یہ عمرہ نہ ہوا بعد ازاں میں نے مہاجرین وانصار کو بھی یہی کام کرتے دیکھا کہ عمرہ نہیں ہوتا تھا۔ آخری شخصیت جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ذات گرامی تھی۔ انھوں نے بھی حج کوتوڑ کر عمرہ نہیں بنایا تھا۔ ابن عمر ؓ بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن ان سے اس کے متعلق پوچھتے نہیں۔ اسی طرح جو اکابر پہلےگزرگئے ہیں ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی پہلا قدم طواف کے لیے اٹھتا تھا۔ پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی خالہ اور والدہ کو دیکھا ہے جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں۔ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1597
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1641
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1641
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1641
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے حج کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے مجھے آگاہ فرمایا۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ وضو کیا، پھر بیت اللہ کاطواف کیا۔ محض طواف کرنے ہی سے آپ کا عمرہ مکمل نہیں ہواتھا۔ اس کے بعدحضرت ابو بکر ؓ نے حج کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ بیت اللہ کا طواف تھا، پھر یہ عمرہ نہ ہوا۔ اس کے بعد حضرت عمرفاروق ؓ نے بھی اسی طرح کیا۔ (حضرت عروہ نے کہا) پھر حضرت عثمان ؓ نے حج کیا۔ میں نے ان کو سب سے پہلے جو کام کرتے دیکھا وہ بیت اللہ کا طواف تھا، پھر یہ عمرہ نہ بنا۔ اس کے بعد امیر معاویہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ (نے بھی ایسے ہی کیا) اسکے بعد میں نے(اپنے والد گرامی) حضرت زبیر ؓ کے ساتھ حج کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر یہ عمرہ نہ ہوا بعد ازاں میں نے مہاجرین وانصار کو بھی یہی کام کرتے دیکھا کہ عمرہ نہیں ہوتا تھا۔ آخری شخصیت جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ذات گرامی تھی۔ انھوں نے بھی حج کوتوڑ کر عمرہ نہیں بنایا تھا۔ ابن عمر ؓ بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن ان سے اس کے متعلق پوچھتے نہیں۔ اسی طرح جو اکابر پہلےگزرگئے ہیں ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی پہلا قدم طواف کے لیے اٹھتا تھا۔ پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی خالہ اور والدہ کو دیکھا ہے جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں۔ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سے احمد بن عیسیٰ نے بیا ن کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبردی، انہیں محمد بن عبدالرحمن بن نوفل قرشی نے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے پوچھاتھا، عروہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جیسا کہ معلوم ہے حج کیا تھا۔ مجھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اس کے متعلق خبردی کہ جب آپ مکہ معظمہ آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آپ نے وضو کیا، پھر کعبہ کاطواف کیا۔ یہ آپ کا عمرہ نہیں تھا۔ اس کے بعد ابو بکر ؓ نے حج کیا اور آپ نے بھی سب سے پہلے کعبہ کا طواف کیا جب کہ یہ آپ کابھی عمرہ نہیں تھا۔ عمرؓ نے بھی اسی طرح کیا۔ پھر عثمان ؓ نے حج کیا میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے آپ نے بھی کعبہ کا طواف کیا۔ آپ کا بھی یہ عمرہ نہیں تھا۔ پھر معاویہ ؓ اور عبداللہ بن عمر ؓ کا زمانہ آیا۔ پھر میں نے اپنے والد الزبیر بن عوام ؓ کے ساتھ بھی حج کیا۔ یہ ( سارے اکابر ) پہلے کعبہ ہی کے طواف سے شروع کرتے تھے جب کہ یہ عمرہ نہیں ہوتاتھا۔ اس کے بعد مہاجرین وانصار کو بھی میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے رہے اور ان کا بھی یہ عمرہ نہیں ہوتاتھا۔ آخری ذات جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا، وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی تھی۔ انہو ں نے بھی عمرہ نہیں کیا تھا۔ ابن عمر ؓ ابھی موجود ہیں لیکن ان سے لوگ اس کے متعلق پوچھتے نہیں۔ اسی طرح جو حضرات گزر گئے، ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا قدم طواف کے لے اٹھتا تھا۔ پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی والدہ ( اسماء بنت ابی بکر ؓ ) اور خالہ ( عائشہ صدیقہ ؓ ) کو بھی دیکھا کہ جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں اور یہ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin 'AbdurRahman bin Nawfal Al-Qurashi (RA): I asked 'Urwa bin Az-Zubair (regarding the Hajj of the Prophet (ﷺ) ). 'Urwa replied, "Aisha narrated, 'When the Prophet (ﷺ) reached Makkah, the first thing he started with was the ablution, then he performed Tawaf of the Ka’bah and his intention was not 'Umra alone (but Hajj and 'Umra together).' " Later Abu Bakr (RA) I performed the Hajj and the first thing he started with was Tawaf of the Ka’bah and it was not 'Umra alone (but Hajj and 'Umra together). And then 'Umar did the same. Then 'Uthman performed the Hajj and the first thing he started with was Tawaf of the Ka’bah and it was not 'Umra alone. And then Muawiyah and 'Abdullah bin 'Umar did the same. I performed Hajj with Ibn Az-Zubair and the first thing he started with was Tawaf of the Ka’bah and it was not 'Umra alone, (but Hajj and 'Umra together). Then I saw the Muhajirin (Emigrants) and Ansar doing the same and it was not 'Umra alone. And the last person I saw doing the same was Ibn 'Umar (RA), and he did not do another 'Umra after finishing the first. Now here is Ibn 'Umar (RA) present amongst the people! They neither ask him nor anyone of the previous ones. And all these people, on entering Makkah, would not start with anything unless they had performed Tawaf of the Ka’bah, and would not finish their Ihram. And no doubt, I saw my mother and my aunt, on entering Makkah doing nothing before performing Tawaf of the Ka’bah, and they would not finish their lhram.