Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Sa'i between As-Safa and Al-Marwa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عمرؓنے فرمایا کہ بنی عباد کے گھروں سے لے کر بنی ابی حسین کی گلی تک دوڑ کر چلے (باقی راہ میں معمولی چال سے)۔
1648.
حضرت عاصم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے پوچھا: کیا آپ لوگ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے کو بُرا خیال کرتے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں کیونکہ یہ دور جاہلیت کا شعار تھا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہذا جو کوئی بیت اللہ کاحج یا عمرہ کرے، اس پر ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ثابت ہوا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ صفا اور مروہ پر دو بت تھے۔ مشرکین جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو انہیں چھوتے تھے اور اس جگہ ان کی عبادت بھی کرتے تھے، اس لیے انصار رسم جاہلیت اور عادت مشرکین کی وجہ سے صفا اور مروہ کی سعی کو ناپسند کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ سے ان کی کراہت کو دور فرمایا ہے۔ (2) اس مضمون کی ایک حدیث حضرت عائشہ ؓ سے بھی مروی ہے، اس کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1643)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1602
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1648
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1648
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1648
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس اثر کو فاکہی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ صفا سے اترے، جب بنو عباد کے دروازے کے سامنے آئے تو ذرا تیز چلے اور بنو ابی الحسین کی گلی تک اسی طرح چلتے رہے۔" اب وہاں دو سبز لائٹیں لگی ہیں۔ ان کے درمیان ذرا تیز رفتار کے ساتھ اور اس کے بعد عام رفتار سے چلنا ہوتا ہے۔ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی تھیں، صفا اور مروہ کے درمیان سعی ام اسماعیل کی یادگار ہے۔ (فتح الباری: 3/634)
اور ابن عمرؓنے فرمایا کہ بنی عباد کے گھروں سے لے کر بنی ابی حسین کی گلی تک دوڑ کر چلے (باقی راہ میں معمولی چال سے)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عاصم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے پوچھا: کیا آپ لوگ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے کو بُرا خیال کرتے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں کیونکہ یہ دور جاہلیت کا شعار تھا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہذا جو کوئی بیت اللہ کاحج یا عمرہ کرے، اس پر ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ثابت ہوا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ صفا اور مروہ پر دو بت تھے۔ مشرکین جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو انہیں چھوتے تھے اور اس جگہ ان کی عبادت بھی کرتے تھے، اس لیے انصار رسم جاہلیت اور عادت مشرکین کی وجہ سے صفا اور مروہ کی سعی کو ناپسند کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ سے ان کی کراہت کو دور فرمایا ہے۔ (2) اس مضمون کی ایک حدیث حضرت عائشہ ؓ سے بھی مروی ہے، اس کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1643)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں کہ سعی بنو عباد کے گھروں سے بنو ابی حسین کی گلی تک ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد مروزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عاصم احول نے خبردی، انہو ں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے پوچھا کہ آپ لوگ صفا اور مروہ کی سعی کو برا سمجھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا، ہاں ! کیونکہ یہ عہد جاہلیت کا شعار تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: ”صفااور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کاحج یا عمرہ کرے اس پر ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
مضمون اس روایت کے موافق ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے اوپر گزری کہ انصار صفا اور مروہ کی سعی بری سمجھتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Asim (RA): I asked Anas bin Malik (RA): "Did you use to dislike to perform Tawaf between Safa and Marwa?" He said, "Yes, as it was of the ceremonies of the days of the Pre-lslamic period of ignorance, till Allah revealed: 'Verily! (The two mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah. It is therefore no sin for him who performs the pilgrimage to the Ka’bah, or performs 'Umra, to perform Tawaf between them.' " (2.158) ________