باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: A menstruating woman can perform all the ceremonies of Hajj except Tawaf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کر لی تو کیا حکم ہے؟
1650.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں حج کے لیے مکہ آئی تو میں حیض سے تھی، اس لیے میں بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی نہ کرسکی۔ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’دیگر حاجیوں کی طرح ارکان حج ادا کرتی رہو لیکن بیت اللہ کا طواف نہ کرو حتیٰ کہ حیض سے پاک ہوجاؤ۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے عنوان کا پہلا جز تو ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے حصے کا ثبوت اس سے نہیں ہوتا۔ شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا اضافہ بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت صفا و مروہ کا طواف بھی نہ کرے۔ اس اضافے کو امام مالک سے یحییٰ بن یحییٰ نیسا پوری کے علاوہ کسی دوسرے نے بیان نہیں کیا۔ اگر یہ اضافہ صحیح ہو تو بھی اس کی بنیاد پر صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ صفا و مروہ کی سعی سے پہلے طواف ضروری ہے۔ جب بے وضو طواف درست نہیں تو اس کے تابع ہونے کی وجہ سے سعی بھی بے وضو منع ہو گی۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر رحمۃ اللہ علیہما سے بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت تمام ارکان حج بجا لائے لیکن بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی نہ کرے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 129/2) اسلاف میں سے کسی نے بھی صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا، البتہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا منقول ہے۔ (فتح الباري: 637/3) (2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے دوسرے جز کو بایں طور پر ثابت کیا ہے کہ اس حدیث سے حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف کرنے کی ممانعت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی بغیر وضو کے اور بلا طہارت ہو سکتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر طواف کے بعد اور سعی سے پہلے عورت کو حیض آ جائے تو وہ صفا و مروہ کی سعی کرے۔ ہمارے نزدیک صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کی پابندی لگانا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1604
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1650
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1650
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1650
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو حصے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حصے کو پورے جزم و وثوق سے بیان کیا ہے کیونکہ حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے جبکہ دوسرے حصے کے متعلق استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے کیونکہ اس کا واضح ثبوت نہیں بلکہ استنباط کا سہارا لیا ہے۔ صفا و مروہ کی وضو کے بغیر سعی کرنا، اس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ ان شاءاللہ
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کر لی تو کیا حکم ہے؟
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں حج کے لیے مکہ آئی تو میں حیض سے تھی، اس لیے میں بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی نہ کرسکی۔ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’دیگر حاجیوں کی طرح ارکان حج ادا کرتی رہو لیکن بیت اللہ کا طواف نہ کرو حتیٰ کہ حیض سے پاک ہوجاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے عنوان کا پہلا جز تو ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے حصے کا ثبوت اس سے نہیں ہوتا۔ شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا اضافہ بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت صفا و مروہ کا طواف بھی نہ کرے۔ اس اضافے کو امام مالک سے یحییٰ بن یحییٰ نیسا پوری کے علاوہ کسی دوسرے نے بیان نہیں کیا۔ اگر یہ اضافہ صحیح ہو تو بھی اس کی بنیاد پر صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ صفا و مروہ کی سعی سے پہلے طواف ضروری ہے۔ جب بے وضو طواف درست نہیں تو اس کے تابع ہونے کی وجہ سے سعی بھی بے وضو منع ہو گی۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر رحمۃ اللہ علیہما سے بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت تمام ارکان حج بجا لائے لیکن بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی نہ کرے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 129/2) اسلاف میں سے کسی نے بھی صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا، البتہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا منقول ہے۔ (فتح الباري: 637/3) (2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے دوسرے جز کو بایں طور پر ثابت کیا ہے کہ اس حدیث سے حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف کرنے کی ممانعت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی بغیر وضو کے اور بلا طہارت ہو سکتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر طواف کے بعد اور سعی سے پہلے عورت کو حیض آ جائے تو وہ صفا و مروہ کی سعی کرے۔ ہمارے نزدیک صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کی پابندی لگانا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے باپ نے او رانہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہوں نے نے فرمایا کہ میں مکہ آئی تو اس وقت میں حائضہ تھی۔ اس لئے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ صفا مروہ کی سعی۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کہ جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح (ارکان حج) ادا کر لو ہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے سے پہلے نہ کرنا‘‘۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I was menstruating when I reached Makkah. So, I neither performed Tawaf of the Ka’bah, nor the Tawaf between Safa and Marwa. Then I informed Allah's Apostle (ﷺ) about it. He replied, "Perform all the ceremonies of Hajj like the other pilgrims, but do not perform Tawaf of the Ka’bah till you get clean (from your menses)." ________