Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The offering of two Salat together at Al-Muzdalifa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1672.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے تو گھاٹی میں اترے۔ وہاں پیشاب کیا۔ پھر وضو فرمایا لیکن پورا نہیں بلکہ ہلکا سا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا: نماز پڑھنی ہے؟آپ نے فرمایا: ’’نماز تو آگے ہوگی۔‘‘ اس کے بعد آپ مزدلفہ تشریف لائے اوروضو کیا، یعنی کامل وضو کیا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز مغرب پڑھی۔ پھر یہ آدمی نے اپنا اونٹ اپنے ٹھکانے پر بٹھایا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھنا چاہیے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ پھر جب وہاں پہنچے تو مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے۔ پھر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن دو نمازوں کو جمع کرنا ہے اگر ان کے درمیانی وقفے میں آدمی تھوڑا کام وغیرہ کر لے تو کوئی قباحت نہیں جیسا کہ صحابہ کرام ؓ نے نماز مغرب کے بعد اپنے اونٹ وغیرہ اپنے ٹھکانوں پر باندھے تھے۔ (3) بعض فقہاء کے نزدیک نمازوں کو جمع کرنا سفر کی وجہ سے ہے جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ حج کی وجہ سے انہیں جمع کیا جاتا ہے۔ بہرحال مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات آپ نے تہجد وغیرہ بھی نہیں پڑھی کیونکہ اگلے دن جو کام کرنے ہوتے ہیں وہ کافی محنت طلب اور اعصاب شکن ہیں، اس لیے ان کی ادائیگی کے لیے اس رات مکمل آرام کیا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1626
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1672
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1672
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1672
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے تو گھاٹی میں اترے۔ وہاں پیشاب کیا۔ پھر وضو فرمایا لیکن پورا نہیں بلکہ ہلکا سا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا: نماز پڑھنی ہے؟آپ نے فرمایا: ’’نماز تو آگے ہوگی۔‘‘ اس کے بعد آپ مزدلفہ تشریف لائے اوروضو کیا، یعنی کامل وضو کیا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز مغرب پڑھی۔ پھر یہ آدمی نے اپنا اونٹ اپنے ٹھکانے پر بٹھایا۔ پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی اور ان کے درمیان کوئی نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھنا چاہیے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ پھر جب وہاں پہنچے تو مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے۔ پھر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن دو نمازوں کو جمع کرنا ہے اگر ان کے درمیانی وقفے میں آدمی تھوڑا کام وغیرہ کر لے تو کوئی قباحت نہیں جیسا کہ صحابہ کرام ؓ نے نماز مغرب کے بعد اپنے اونٹ وغیرہ اپنے ٹھکانوں پر باندھے تھے۔ (3) بعض فقہاء کے نزدیک نمازوں کو جمع کرنا سفر کی وجہ سے ہے جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ حج کی وجہ سے انہیں جمع کیا جاتا ہے۔ بہرحال مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات آپ نے تہجد وغیرہ بھی نہیں پڑھی کیونکہ اگلے دن جو کام کرنے ہوتے ہیں وہ کافی محنت طلب اور اعصاب شکن ہیں، اس لیے ان کی ادائیگی کے لیے اس رات مکمل آرام کیا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں کریب نے، انہوں نے اسامہ بن زید ؓ کو یہ کہتے سنا کہ میدان عرفات سے رسول اللہ ﷺ روانہ ہو کر گھاٹی میں اترے (جو مزدلفہ کے قریب ہے ) وہاں پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہیں کیا (خوب پانی نہیں بہایا ہلکا وضو کیا) میں نے نماز کے متعلق عرض کی تو فرمایا کہ نماز آگے ہے۔ اب آپ ﷺ مزدلفہ تشریف لائے وہاں پھر وضو کیا اور پوری طرح کیا پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ ڈیروں پر بٹھا دیئے پھر دوبارہ نماز عشاءکے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھی، آپ ﷺ نے ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی (سنت یا نفل ) نماز نہیں پڑھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مزدلفہ میں جمع کرنا ثابت ہوا جو باب کا مطلب ہے اور یہ بھی نکلا کہ اگر دو نمازوں کے بیچ میں جن کو جمع کرنا ہو آدمی کوئی تھوڑا سا کام کر لے تو قباحت نہیں۔ یہ بھی نکلا کہ جمع کی حالت میں سنت وغیرہ پڑھنا ضروری نہیں، یہ جمع شافعیہ کے نزدیک سفر کی وجہ سے ہے اور حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک حج کی وجہ سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA): Allah's Apostle (ﷺ) proceeded from 'Arafat and dismounted at the mountainous pass and then urinated and performed a light ablution. I said to him, "(Shall we offer) the prayer?" He replied, "The prayer is ahead of you (i.e. at Al-Muzdalifa)." When he came to Al-Muzdalifa, he performed a perfect ablution. Then Iqama for the prayer was pronounced and he offended the Maghrib prayer and then every person made his camel kneel at his place; and then Iqama for the prayer was pronounced and he offered the ('Isha') prayer and he did not offer any prayer in between them (i.e. Maghrib and 'Isha' prayers). ________