باب : عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کردینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Whosoever sent the weak early (from Al-Muzdalifa to Mina))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1681.
حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم مزدلفہ میں اترے تو حضرت سودہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے منیٰ روانہ ہوجائیں کیونکہ وہ ذرا سست رفتار تھیں۔ آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی، چنانچہ وہ لوگوں کی بھیڑ سے پہلے ہی نکل کھڑی ہوئیں۔ اور ہم لوگ صبح تک وہیں ٹھہرے رہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ واپس ہوئے۔ کاش! میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی ہوتی جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے لی تھی تو یہ میرے لیے زیادہ محبوب اور بہت بڑی خوشی کی بات تھی۔
تشریح:
(1) کمزور لوگوں سے مراد بچے،عورتیں، بوڑھے اور بیمار افراد ہیں۔ ان کے لیے اجازت ہے کہ جب چاند غروب ہو جائے تو وہ منیٰ آ جائیں تاکہ ہجوم کی زحمت سے محفوظ رہیں اور طلوع شمس سے پہلے پہلے رمی کر لیں جیسا کہ حضرت اسماء ؓ کے عمل سے واضح ہوتا ہے۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی تھی جیسا کہ ان کا اپنا بیان ہے۔ (2) بہرحال دسویں کی رات مزدلفہ میں گزارنا ضروری ہے، البتہ بچوں، عورتوں اور کمزور لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ تھوڑی دیر مزدلفہ میں قیام کر کے منیٰ روانہ ہو جائیں اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں۔ اگرچہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایسے ناتواں لوگ بھی طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں، تاہم حضرت اسماء ؓ کی روایت میں صراحت کے ساتھ اجازت موجود ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا تھا کہ تم ہمارے کمزور افراد اور عورتوں کے ہمراہ جاؤ او نماز صبح منیٰ میں پڑھو، پھر لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جاؤ، نیز حضرت عائشہ ؓ نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش! میں نماز فجر منیٰ میں پڑھتی اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے رمی کر لیتی۔ (فتح الباري:668/3 ،669)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1635
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1681
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1681
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1681
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم مزدلفہ میں اترے تو حضرت سودہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے منیٰ روانہ ہوجائیں کیونکہ وہ ذرا سست رفتار تھیں۔ آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی، چنانچہ وہ لوگوں کی بھیڑ سے پہلے ہی نکل کھڑی ہوئیں۔ اور ہم لوگ صبح تک وہیں ٹھہرے رہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ واپس ہوئے۔ کاش! میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی ہوتی جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے لی تھی تو یہ میرے لیے زیادہ محبوب اور بہت بڑی خوشی کی بات تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) کمزور لوگوں سے مراد بچے،عورتیں، بوڑھے اور بیمار افراد ہیں۔ ان کے لیے اجازت ہے کہ جب چاند غروب ہو جائے تو وہ منیٰ آ جائیں تاکہ ہجوم کی زحمت سے محفوظ رہیں اور طلوع شمس سے پہلے پہلے رمی کر لیں جیسا کہ حضرت اسماء ؓ کے عمل سے واضح ہوتا ہے۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی تھی جیسا کہ ان کا اپنا بیان ہے۔ (2) بہرحال دسویں کی رات مزدلفہ میں گزارنا ضروری ہے، البتہ بچوں، عورتوں اور کمزور لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ تھوڑی دیر مزدلفہ میں قیام کر کے منیٰ روانہ ہو جائیں اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں۔ اگرچہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایسے ناتواں لوگ بھی طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں، تاہم حضرت اسماء ؓ کی روایت میں صراحت کے ساتھ اجازت موجود ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا تھا کہ تم ہمارے کمزور افراد اور عورتوں کے ہمراہ جاؤ او نماز صبح منیٰ میں پڑھو، پھر لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جاؤ، نیز حضرت عائشہ ؓ نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش! میں نماز فجر منیٰ میں پڑھتی اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے رمی کر لیتی۔ (فتح الباري:668/3 ،669)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ جب ہم نے مزدلفہ میں قیام کیا تو نبی کریم ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو لوگوں کے اژدہام سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت دے دی تھیں، وہ بھاری بھرکم بدن کی خاتون تھیں، اس لیے آپ نے اجازت دے دی چنانچہ وہ اژدہام سے پہلے روانہ ہو گئیں۔ لیکن ہم وہیں ٹھہرے رہے اور صبح کو آپ ﷺ کے ساتھ گئے اگر میں بھی حضرت سودہ ؓ کی طرح آپ ﷺ سے اجازت لیتی تو مجھ کو تمام خوشی کی چیزوں میں یہ بہت ہی پسند ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We got down at Al-Muzdalifa and Sauda asked the permission of the Prophet (ﷺ) to leave (early) before the rush of the people. She was a slow woman and he gave her permission, so she departed (from Al-Muzdalifa) before the rush of the people. We kept on staying at Al-Muzdalifa till dawn, and set out with the Prophet (ﷺ) but (I suffered so much that) I wished I had taken the permission of Allah's Apostle (ﷺ) as Sauda had done, and that would have been dearer to me than any other happiness. ________