باب : کسی آدمی کا اپنی بیویوں کی طرف سے ان کی اجازت بغیر گائے کی قربانی کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To slaughter on behalf of one’s wives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1709.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم پچیس ذوالقعدہ کو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر چکے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا: یہ گوشت کیسا ہے؟لانے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ راوی حدیث یحییٰ بن سعید نے اس حدیث کا ذکر قاسم سے کیا تو اس نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جب گائے کا گوشت لایا گیا تو انہوں نے اس کے متعلق پوچھا۔ اگر انہوں نے اجازت دی ہوتی تو پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ازواج مطہرات سے اس کی اجازت لی ہو لیکن جب گوشت سامنے آیا تو سوال کیا کہ آیا یہ وہی گوشت ہے جس کی ہم نے اجازت دی تھی یا کوئی دوسرا ہے، البتہ یہ تاویل امام بخاری کے مقصد کے خلاف ہے اور حدیث کا سیاق بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت یا اس کے علم میں لائے بغیر کوئی کارخیر سرانجام دیتا ہے تو اسے ثواب پہنچتا ہے، نیز اس میں گائے وغیرہ کی قربانی میں شراکت کا ثبوت بھی ہے۔ (3) اس حدیث کی بنا پر بعض علماء کے نزدیک گائے کو نحر کرنا بھی جائز ہے لیکن ذبح کرنا مستحب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (البقرة:67:2، و فتح الباري:695/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1661
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1709
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1709
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1709
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم پچیس ذوالقعدہ کو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر چکے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا: یہ گوشت کیسا ہے؟لانے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ راوی حدیث یحییٰ بن سعید نے اس حدیث کا ذکر قاسم سے کیا تو اس نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جب گائے کا گوشت لایا گیا تو انہوں نے اس کے متعلق پوچھا۔ اگر انہوں نے اجازت دی ہوتی تو پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ازواج مطہرات سے اس کی اجازت لی ہو لیکن جب گوشت سامنے آیا تو سوال کیا کہ آیا یہ وہی گوشت ہے جس کی ہم نے اجازت دی تھی یا کوئی دوسرا ہے، البتہ یہ تاویل امام بخاری کے مقصد کے خلاف ہے اور حدیث کا سیاق بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت یا اس کے علم میں لائے بغیر کوئی کارخیر سرانجام دیتا ہے تو اسے ثواب پہنچتا ہے، نیز اس میں گائے وغیرہ کی قربانی میں شراکت کا ثبوت بھی ہے۔ (3) اس حدیث کی بنا پر بعض علماء کے نزدیک گائے کو نحر کرنا بھی جائز ہے لیکن ذبح کرنا مستحب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (البقرة:67:2، و فتح الباري:695/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ ؓ سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے ) نکلے تو ذی قعدہ میں سے پانچ دن باقی رہے تھے ہم صرف حج کا ارادہ لے کر نکلے تھے، جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ جب طواف کرلیں اور صفا و مروہ کی سعی بھی کرلیں تو حلال ہو جائیں گے، حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ قربانی کے دن ہمارے گھر گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ (لانے والے نے بتلایا ) کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے یہ قربانی کی ہے، یحییٰ نے کہا کہ میں نے عمرہ کی یہ حدیث قاسم سے بیان کی انہوں نے کہا عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ترجمہ باب تو گائے کا ذبح کرنا مذکور ہے اور حدیث میں نحر کا لفظ ہے تو حدیث باب سے مطابق نہیں ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں نحر سے ذبح مراد ہے چنانچہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں جو آگے مذکور ہوگا ذبح کا لفظ ہے اور گائے کا نحر کرنا بھی جائز ہے مگر ذبح کرنا علماءنے بہتر سمجھا ہے اور قرآن شریف میں بھی ﴿أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾(البقرة :67) وارد ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی تھی، گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسلمہ ہے، حج کے موقع پر تو یہ ہر مسلمان کرسکتا ہے مگر عید الاضحی پر یہاں اپنا ہاں کے ملکی قانون ( بھارتی قانون ) کی بنا پر بہتر یہی ہے کہ صرف بکرے یا دنبہ کی قربانی کی جائے اور گائے کی قربانی نہ کی جائے جس سے یہاں بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ قرآنی اصول ہے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :أما التعبير بالذبح مع أن حديث الباب بلفظ النحر فإشارة إلى ما ورد في بعض طرقه بلفظ الذبح وسيأتي بعد سبعة أبواب من طريق سليمان بن بلال عن يحيى بن سعيد ونحر البقر جائز عند العلماء إلا أن الذبح مستحب عندهم لقوله تعالى إن الله يأمركم أن تذبحوا بقرة وخالف الحسن بن صالح فاستحب نحرها وأما قوله من غير أمرهن فأخذه من استفهام عائشة عن اللحم لما دخل به عليها ولو كان ذبحه بعلمها لم تحتج إلى الاستفهام لكن ليس ذلك دافعا للاحتمال فيجوز أن يكون علمها بذلك تقدم بأن يكون استأذنهن في ذلك لكن لما أدخل اللحم عليها احتمل عندها أن يكون هو الذي وقع الاستئذان فيه وأن يكون غير ذلك فاستفهمت عنه لذلك۔ (فتح) یعنی حدیث الباب میں لفظ نحر کو ذبح سے تعبیر کرنا حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں بجائے نحر کے لفظ ذبح ہی وارد ہوا ہے جیسا کہ عنقریب وہ حدیث آئے گی۔ گائے کا نحر کرنا بھی علماءکے نزدیک جائز ہے مگر مستحب ذبح کرنا ہے کیوں کہ بمطابق آیت قرآنی ”بے شک اللہ تمہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے“ یہاں لفظ ذبح گائے کے لیے استعمال ہوا ہے، حسن بن صالح نے نحر کو مستحب قرار دیا ہے اور باب میں لفظ ''من غیر أمرهن'' حضرت عائشہ ؓ کے استفہام سے لیا گیا ہے کہ جب وہ گوشت آیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے اگر ان کے علم سے ذبح ہوتا تو استفہام کی حاجت نہ ہوتی، لیکن اس توجیہ سے احتمال دفع نہیں ہوتا، پس ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو پہلے ہی اس کا علم ہو جب کہ ان سے اجازت لے کر ہی یہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہوگی۔ اس وقت حضرت عائشہ ؓ کو خیال ہوا کہ یہ وہی اجازت والی قربانی کا گوشت ہے یا اس کے سوا اور کوئی ہے اسی لیے انہوں نے دریافت فرمایا، اس توجیہ سے یہ اعتراض بھی دفع ہو گیا کہ جب بغیر اجازت کے قربانی جائزنہیں جن کی طرف سے کی جارہی ہے تو یہ قربانی ازواج النبی ﷺ کی طرف سے کیوں کر جائز ہوگی۔ پس ان کی اجازت ہی سے کی گئی مگر گوشت آتے وقت انہوں نے تحقیق کے لیے دریافت کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amra bint 'AbdurRahman (RA): I heard 'Aisha (RA) saying, "Five days before the end of Dhul-Qa'ada we set out from Madinah in the company of Allah's Apostle (ﷺ) with the intention of performing Hajj only. When we approached Makkah, Allah's Apostle (ﷺ) ordered those who had no Hadi with them to finish their lhram after performing Tawaf of the Ka’bah and (Sa'i) and between Safa and Marwa." 'Aisha (RA) added, "On the day of Nahr (slaughtering of sacrifice) beef was brought to us. I asked, 'What is this?' The reply was, 'Allah's Apostle (ﷺ) has slaughtered (sacrifices) on behalf of his wives.' " ________