Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To slaughter the camels while they are standing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ عنہما نے کہا کہ حضرت محمد ﷺکی یہی سنت ہے، ابن عباس ؓنے کہا کہ ( سورۃ حج میں ) جو آیا ہے فاذکروا اسم اللہ علیہا صواف کے معنی یہی ہیں کہ وہ کھڑے ہوں صفیں باندھ کر۔
1715.
حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ظہر کی چار رکعت پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دورکعت ادا کیں۔ راوی حدیث اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے، انھوں نے ایک آدمی سے، اس نے حضرت انس ؓ سے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ رات بھر ذوالحلیفہ میں رہے حتی کہ صبح ہو گئی۔ پھر صبح کی نماز پڑھ کر اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ جب آپ کی سواری مقام بیداء پر پہنچی تو حج اور عمرہ دونوں کا لبیک کہا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں اونٹوں کو نحر کرنے کی کیفیت بیان ہوئی ہے کہ انہیں کھڑے کھڑے نحر کیا گیا۔ امام بخارى ؒ یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس عنوان کو پہلے عنوان کے ساتھ ملایا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اونٹ کا ایک بازو باندھا جائے، پھر کھڑے کھڑے اسے نحر کیا جائے۔ (2) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے ایک دوسری روایت کا بھی حوالہ دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایوب سے بیان کرنے والے وہیب اور اسماعیل بن علیہ دو راوی ہیں۔ وہیب نے ایک ہی سند سے یہ روایت بیان کی ہے جبکہ اسماعیل کے ہاں اس حدیث کی دو اسناد ہیں: ایک میں ابو قلابہ کی صراحت ہے جبکہ دوسری سند میں ایک مجہول راوی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ابو قلابہ ہی ہو۔ بہرحال یہ روایت وہیب نے پورے جزم اور وثوق سے بیان کی ہے جبکہ اسماعیل کو شک گزرا ہے یا بھول گئے ہیں۔ چونکہ یہ روایت تائید کے لیے ہے، اس لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:700/3)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1667
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1715
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1715
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1715
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت متصل سند سے (1713) نمبر کے تحت بیان ہو چکی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ) "انہیں صف بستہ کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو۔" (الحج36:22) اس آیت کریمہ میں (صَوَافَّ) کے معنی قياما کیے گئے ہیں۔ یہ معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں جنہیں سعید بن منصور نے اپنی سنن میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/700) اس عنوان کو جب پہلے عنوان سے ملایا جائے تو قربانی کے اونٹوں کو نحر کرنے کے اداب سے آگاہی ہوتی ہے کہ انہیں کھڑا کر کے پاؤں باندھ کر نحر کیا جائے، یعنی انہیں لٹا کر ذبح نہ کیا جائے بلکہ کھڑے کھڑے ان کا اگلا بایاں پاؤں باندھ لیا جائے، پھر نیزہ یا برچھا یا کوئی تیز دھار آلہ اس کی گردن میں چبھو دیا جائے۔ اس طرح کھڑے ہی کھڑے اس کا خون نکل جائے گا اور وہ اپنے پہلو پر گر جائے گا۔ جب وہ تڑپنا بند کر دے تو اس کی کھال اتاری جائے۔
اور عبداللہ بن عمر ؓ عنہما نے کہا کہ حضرت محمد ﷺکی یہی سنت ہے، ابن عباس ؓنے کہا کہ ( سورۃ حج میں ) جو آیا ہے فاذکروا اسم اللہ علیہا صواف کے معنی یہی ہیں کہ وہ کھڑے ہوں صفیں باندھ کر۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ظہر کی چار رکعت پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دورکعت ادا کیں۔ راوی حدیث اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے، انھوں نے ایک آدمی سے، اس نے حضرت انس ؓ سے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ رات بھر ذوالحلیفہ میں رہے حتی کہ صبح ہو گئی۔ پھر صبح کی نماز پڑھ کر اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ جب آپ کی سواری مقام بیداء پر پہنچی تو حج اور عمرہ دونوں کا لبیک کہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں اونٹوں کو نحر کرنے کی کیفیت بیان ہوئی ہے کہ انہیں کھڑے کھڑے نحر کیا گیا۔ امام بخارى ؒ یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس عنوان کو پہلے عنوان کے ساتھ ملایا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اونٹ کا ایک بازو باندھا جائے، پھر کھڑے کھڑے اسے نحر کیا جائے۔ (2) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے ایک دوسری روایت کا بھی حوالہ دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایوب سے بیان کرنے والے وہیب اور اسماعیل بن علیہ دو راوی ہیں۔ وہیب نے ایک ہی سند سے یہ روایت بیان کی ہے جبکہ اسماعیل کے ہاں اس حدیث کی دو اسناد ہیں: ایک میں ابو قلابہ کی صراحت ہے جبکہ دوسری سند میں ایک مجہول راوی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ابو قلابہ ہی ہو۔ بہرحال یہ روایت وہیب نے پورے جزم اور وثوق سے بیان کی ہے جبکہ اسماعیل کو شک گزرا ہے یا بھول گئے ہیں۔ چونکہ یہ روایت تائید کے لیے ہے، اس لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:700/3)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبد اللہ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنا حضرت محمد ﷺکی سنت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے قرآنی لفظ صَوَافَّ کے معنی بایں الفاظ بیان کیے ہیں: "وہ کھڑے ہوں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت اور عصر کی ذو الحلیفہ میں دو رکعات پڑھی تھیں۔ ایوب نے ایک شخص کے واسطہ سے بروایت انس ؓ کہا پھر آپ ﷺ نے وہیں رات گزاری۔ صبح ہوئی تو فجر کی نماز پڑھی اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے، پھر جب مقام بیداءپہنچے تو عمرہ اور حج دونوں کا نام لے کر لبیک پکارا۔
حدیث حاشیہ:
ایوب کی روایت میں راوی مجہول ہے اگر امام بخاری نے متابعت کے طور پر اس سند کو ذکر کیا تو اس کے مجہول ہونے میں قباحت نہیں، بعض نے کہا کہ یہ شخص ابوقلابہ ہیں۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) offered four Rakat of Zuhr prayer at Madinah and two Rakat of 'Asr prayer at Dhul-Hulaifa. Narrated Aiyub (RA): "A man said: Anas said, "Then he (the Prophet (ﷺ) passed the night there till dawn and then he offered the morning (Fajr) prayer, and mounted his Mount and when it arrived at Al-Baida' he assumed Ihram for both 'Umra and Hajj." ________