باب : قصاب کو بطور مزدوری اس قربانی کے جانوروں میں سے کچھ نہ دیا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The butcher should not be given anything of the Hadi)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1716.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھےاونٹوں کی نگہداشت کے لیے روانہ کیا۔ جب میں گیا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت تقسیم کروں، چنانچہ میں نے تقسیم کردیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی خیرات کردیں۔ حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھےنبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔
تشریح:
(1) جزار اس مزدوری کو کہتے ہیں جو قصاب کو اونٹ ذبح کرنے، کھال اتارنے اور اس کا گوشت بنانے کے عوض دی جاتی ہے۔ چونکہ عرب میں اونٹ کی سری اور پائے مزدوری میں دینے کا رواج تھا اور یہ دونوں قربانی کا حصہ ہیں جو محتاج لوگوں کو فی سبیل اللہ دینے چاہئیں، اس لیے اونٹ کے سری پائے یا کھال بطور مزدوری دینا منع ہے۔ (2) پہلی حدیث میں قربانی کی جھولیں اور کھال تک خیرات کرنے کا بیان ہے۔ دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ قربانی کا کوئی حصہ قصاب کو بطور اجرت دینے کی ممانعت ہے بلکہ اسے معاوضہ اپنی طرف سے دینا چاہیے، تاہم خیرات کے طور پر گوشت وغیرہ قصاب کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔ جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا منع ہے اسی طرح اس کا کوئی حصہ بطور معاوضہ دینا بھی جائز نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1668
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1716
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1716
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1716
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھےاونٹوں کی نگہداشت کے لیے روانہ کیا۔ جب میں گیا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت تقسیم کروں، چنانچہ میں نے تقسیم کردیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی خیرات کردیں۔ حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھےنبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) جزار اس مزدوری کو کہتے ہیں جو قصاب کو اونٹ ذبح کرنے، کھال اتارنے اور اس کا گوشت بنانے کے عوض دی جاتی ہے۔ چونکہ عرب میں اونٹ کی سری اور پائے مزدوری میں دینے کا رواج تھا اور یہ دونوں قربانی کا حصہ ہیں جو محتاج لوگوں کو فی سبیل اللہ دینے چاہئیں، اس لیے اونٹ کے سری پائے یا کھال بطور مزدوری دینا منع ہے۔ (2) پہلی حدیث میں قربانی کی جھولیں اور کھال تک خیرات کرنے کا بیان ہے۔ دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ قربانی کا کوئی حصہ قصاب کو بطور اجرت دینے کی ممانعت ہے بلکہ اسے معاوضہ اپنی طرف سے دینا چاہیے، تاہم خیرات کے طور پر گوشت وغیرہ قصاب کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔ جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا منع ہے اسی طرح اس کا کوئی حصہ بطور معاوضہ دینا بھی جائز نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے (قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے ) بھیجا۔ اس لیے میں نے ان کی دیکھ بھال کی، پھر آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے گوشت تقسیم کئے، پھر آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے جھول اور چمڑے بھی تقسیم کر دئیے۔ سفیان نے کہا کہ مجھ سے عبدالکریم نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی ؓ نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کروں اور ان میں سے کوئی چیز قصائی کی مزدوری میں نہ دوں۔
حدیث حاشیہ:
جیسے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ قصائی کی اجرت میں کھال یا اوجھڑی یا سری پائے حوالہ کردیتے ہیں، بلکہ اجرت اپنے پاس سے دینی چاہئے البتہ اگر قصائی کو للّٰہ کوئی چیز قربانی میں سے دیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) صحیح مسلم میں حدیث جابر میں ہے کہ اس دن رسول کریم ﷺ نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے پھر باقی پر حضرت علی ؓ کو مامور فرمادیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): The Prophet (ﷺ) sent me to supervise the (slaughtering of) Budn (Hadi camels) and ordered me to distribute their meat, and then he ordered me to distribute their covering sheets and skins. 'All added, "The Prophet (ﷺ) ordered me to supervise the slaughtering (of the Budn) and not to give anything (of their bodies) to the butcher as wages for slaughtering."