باب : قربانی کے جانوروں کے جھول بھی صدقہ کر دیے جائیں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The covering sheets of Budn are to be given in charity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1718.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت صدقہ کردوں تو میں نے اسے تقسیم کردیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے انھیں بھی بانٹ دیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی کھالیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے وہ بھی تقسیم کردیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت، جھولیں اور کھالیں تقسیم کر دینا مسنون عمل ہے اور اس کارخیر کے لیے کسی کو وکیل بھی بنایا جا سکتا ہے۔ دینی مدارس کے غریب طلباء بھی اس کے حقدار ہیں، قربانی کی کھالیں انہیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ (2) ہمارے ہاں دیہاتوں میں کھالیں وغیرہ ائمہ مساجد کو دے دی جاتی ہیں جس طرح قصاب کو بطور اجرت کھال نہیں دی جا سکتی اسی طرح امام مسجد کو بھی بطور حق الخدمت قربانی کی کھال دینا درست نہیں۔ اگر وہ غریب یا مسکین ہے تو اسے بقدر حصہ دیا جا سکتا ہے، تاہم تمام کھالوں پر قبضہ جما لینا کسی صورت میں جائز نہیں کیونکہ یہ غرباء اور مساکین کا حق ہے اور ان کو یہ حق ملنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1670
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1718
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1718
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1718
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایک سو اونٹوں کی قربانی دی۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت صدقہ کردوں تو میں نے اسے تقسیم کردیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے انھیں بھی بانٹ دیا۔ پھر آپ نے مجھے ان کی کھالیں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نے وہ بھی تقسیم کردیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت، جھولیں اور کھالیں تقسیم کر دینا مسنون عمل ہے اور اس کارخیر کے لیے کسی کو وکیل بھی بنایا جا سکتا ہے۔ دینی مدارس کے غریب طلباء بھی اس کے حقدار ہیں، قربانی کی کھالیں انہیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ (2) ہمارے ہاں دیہاتوں میں کھالیں وغیرہ ائمہ مساجد کو دے دی جاتی ہیں جس طرح قصاب کو بطور اجرت کھال نہیں دی جا سکتی اسی طرح امام مسجد کو بھی بطور حق الخدمت قربانی کی کھال دینا درست نہیں۔ اگر وہ غریب یا مسکین ہے تو اسے بقدر حصہ دیا جا سکتا ہے، تاہم تمام کھالوں پر قبضہ جما لینا کسی صورت میں جائز نہیں کیونکہ یہ غرباء اور مساکین کا حق ہے اور ان کو یہ حق ملنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سیف بن ابی سلیمان نے بیان کیا، کہا میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے علی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (حجۃ الوداع کے موقع پر ) سو اونٹ قربان کئے، میں نے آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ان کے گوشت بانٹ دئیے، پھر آپ ﷺ نے ان کے جھول بھی تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے انہیں بھی تقسیم کیا، پھر چمڑے کے لیے حکم دیا اور میں نے انہیں بھی بانٹ دیا۔
حدیث حاشیہ:
قربانی کے جانور کا چمڑا اس کا جھول سب غرباءو مساکین میں للہ تقسیم کر دیا جائے یا ان کو فروخت کرکے مستحقین کو ان کی قیمت دے دی جائے، چمڑے کا خود اپنے استعمال میں مصلی یا ڈول وغیرہ بنانے کے لیے لانا بھی جائز ہے۔ آج کل مدارس اسلامیہ کے غریب طلباءبھی اس مد سے امداد کئے جانے کے مستحق ہیں جو اپنا وطن اور متعلقین کو چھوڑ کر دور دراز مدارس اسلامیہ میں خالص دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں اور جن میں اکثریت غرباءکی ہوتی ہے، ایسے مدرسے ان کی امداد بہت بڑا کار ثواب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): The Prophet (ﷺ) offered one hundred Budn as Hadi and ordered me to distribute their meat (in charity) and I did so. Then he ordered me to distribute their covering sheets in charity and I did so. Then he ordered me to distribute their skins in charity and I did so. ________