باب : قربانی کے جانوروں میں سے کیا کھائیں او رکیا خیرات کریں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: What is to be eaten of Budn and what to be distributed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبیداللہ نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی او رانہیں ابن عمر ؓ نے کہا کہ احرام میں کوئی شکار کرے اور اس کا بدلہ دینا پڑے تو بدلہ کے جانور اور نذر کے جانور سے خود کچھ بھی نہ کھائے اور باقی سب میں سے کھا لے اور عطا نے کہا تمتع کی قربانی سے کھائے اور کھلائے۔
1720.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہم نے صرف حج کا ارادہ کیا تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ہمراہ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف کرلے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہمارے پاس قربانی کے دن گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟بتایا گیا کہ نبی ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے اسے ذبح کیا ہے۔ راوی حدیث یحییٰ نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر جناب قاسم سے کیا تو انھوں نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث تم سے ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھایا جا سکتا ہے، اسے سارے کا سارا صدقہ کرنا ضروری نہیں۔ (2) قربانی کا گوشت کتنا خود استعمال کرنا ہے اور کتنا صدقہ کرنا ہے؟ اس کے متعلق کوئی متعین مقدار بیان نہیں ہوئی۔ بہتر ہے کہ اس کے تین حصے کر لیے جائیں: ایک حصہ خود استعمال کرے، ایک حصہ دوست احباب کو تحفے میں دے اور ایک حصہ صدقہ و خیرات کر دے، چنانچہ عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت علقمہ کو حکم دیتے تھے کہ وہ قربانی کے تین حصے کرے: ایک تہائی صدقہ و خیرات کر دے، ایک حصہ اپنے استعمال کے لیے رکھ لے اور ایک تہائی دوستوں کو بطور تحفہ بھیج دے۔ (عمدةالقاري:33/7) قرآن کی ایک آیت سے بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے۔ (الحج:36:22)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1672
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1720
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1720
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1720
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
معنی کے اعتبار سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عطاء بن ابی رباح کے اقوال میں کوئی فرق نہیں، صرف اسلوب اور طرز ادا ہی الگ الگ ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے (تفسیرالطبری:2/290) اور حضرت عطاء بن ابی رباح کی تعلیق امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں بیان کی ہے۔ (فتح الباری:3/705،404)
اور عبیداللہ نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی او رانہیں ابن عمر ؓ نے کہا کہ احرام میں کوئی شکار کرے اور اس کا بدلہ دینا پڑے تو بدلہ کے جانور اور نذر کے جانور سے خود کچھ بھی نہ کھائے اور باقی سب میں سے کھا لے اور عطا نے کہا تمتع کی قربانی سے کھائے اور کھلائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہم نے صرف حج کا ارادہ کیا تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ہمراہ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف کرلے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہمارے پاس قربانی کے دن گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟بتایا گیا کہ نبی ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے اسے ذبح کیا ہے۔ راوی حدیث یحییٰ نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر جناب قاسم سے کیا تو انھوں نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث تم سے ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھایا جا سکتا ہے، اسے سارے کا سارا صدقہ کرنا ضروری نہیں۔ (2) قربانی کا گوشت کتنا خود استعمال کرنا ہے اور کتنا صدقہ کرنا ہے؟ اس کے متعلق کوئی متعین مقدار بیان نہیں ہوئی۔ بہتر ہے کہ اس کے تین حصے کر لیے جائیں: ایک حصہ خود استعمال کرے، ایک حصہ دوست احباب کو تحفے میں دے اور ایک حصہ صدقہ و خیرات کر دے، چنانچہ عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت علقمہ کو حکم دیتے تھے کہ وہ قربانی کے تین حصے کرے: ایک تہائی صدقہ و خیرات کر دے، ایک حصہ اپنے استعمال کے لیے رکھ لے اور ایک تہائی دوستوں کو بطور تحفہ بھیج دے۔ (عمدةالقاري:33/7) قرآن کی ایک آیت سے بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے۔ (الحج:36:22)
ترجمۃ الباب:
عبید اللہ بواسطہ حضرت نافع سید نا ابن عمر ؓ سے خبر دیتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: شکار کا کفارہ اور نذر کا گوشت تو نہ کھایا جائے البتہ ان کے علاوہ ہر قسم کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ تمتع کی قربانی سے خود بھی کھا سکتا ہے اوردوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا، کہا مجھ سے عمرہ نے بیان کیا، کہا میں نے عائشہ ؓ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مدینہ سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ذی قعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تھے، ہمارا ارادہ صرف حج ہی کا تھا، پھر جب مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جن کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ بیت اللہ کا طواف کرکے حلال ہو جائے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر ہمارے پاس بقرعید کے دن گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس وقت معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا قاسم بن محمد سے ذکر کیا توانہوں نے کہا کہ عمرہ نے تم سے ٹھیک ٹھیک حدیث بیان کردی ہے۔ (ہر دو احادیث سے مقصد باب ظاہر ہے ) کہ قربانی کا گوشت کھانے او ربطور توشہ رکھنے کی عام اجازت ہے، خود قرآن مجید میں فکلوا منها کا صیغہ موجود ہے کہ اسے غرباءمساکین کو بھی تقسیم کرو اور خود بھی کھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amra (RA): I heard 'Aisha (RA) saying, "We set out (from Medina) along with Allah's Apostle (ﷺ) five days before the end of Dhul-Qa'da with the intention of performing Hajj only. When we approached Makkah, Allah's Apostle (ﷺ) ordered those who had no Hadi along with them to finish the lhram after performing Tawaf of the Ka’bah, (Safa and Marwa). 'Aisha (RA) added, "Beef was brought to us on the Day of Nahr and I said, 'What is this?' Somebody said, 'The Prophet (ﷺ) has slaughtered (cows) on behalf of his wives.' " ________