Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Al-Khutba during the Days of Mina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1740.
حضرت ابن عباس ؓ سے ہی روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے میدان عرفات میں نبی ﷺ کا خطبہ خود سناتھا۔
تشریح:
(1) عام طور پر حج کے چھ دن ہیں جو آٹھ ذوالحجہ سے شروع ہو کر تیرہ ذوالحجہ تک رہتے ہیں۔ پہلے دن کو یوم الترویہ، دوسرے کو یوم عرفہ، تیسرے کو یوم النحر، چوتھے کو یوم القر، پانچویں کو یوم نفر اول اور چھٹے کو یوم نفر ثانی کہا جاتا ہے۔ (2) ان دنوں موقع محل کی مناسبت سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کے لیے امام کو چاہیے کہ وہ خطبہ دینے کا اہتمام کرے۔ پہلا خطبہ جو نویں ذوالحجہ کو دیا جاتا ہے وہ نماز سے پہلے اور باقی تین خطبے اس کے بعد ہیں۔ ان میں سے ایک خطبہ قربانی کے دن ہے۔ کچھ لوگ اس دن خطبہ کے مسنون ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وصایا ہیں جو نبی ﷺ نے امت کو ارشاد فرمائی ہیں، اس میں حج سے متعلقہ احکام و مسائل نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ راوی کے نزدیک یہ خطبہ ہے جیسا کہ عرفات کے دن خطبہ دیا تھا۔ اس بنا پر قربانی کے دن خطبہ دینا بھی سنت نبوی ہے، یہ عام وعظ و ارشاد نہیں۔ چونکہ حج کا ایک مقصد عالم اسلام کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دینا ہے، اس مقصد کے لیے بہترین ذریعہ یہ خطبات ہیں، اس لیے خطیب کو چاہیے کہ وہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی روشنی ڈالے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی، نیز باہمی اتفاق و اتحاد کی دعوت دے، حج بیت اللہ کا یہی مقصود اعظم ہے۔ (3) حضرت ابن عباس ؓ سے دوسری روایت میں میدان عرفات میں خطبہ دینے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ راوی حدیث ابن عباس ؓ عرفہ کے دن وعظ و ارشاد کو خطبہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس دن خطبہ کے مسنون ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں تو وہی راوی قربانی کے دن وعظ و نصیحت کو بھی خطبہ کا نام دیتے ہیں تو اسے اختلاف کی بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال دس تاریخ کو خطبہ دینا بھی مسنون ہے۔ (4) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک متابعت بھی بیان کی ہے جسے امام احمد بن حنبل ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اگرچہ محل خطبہ کی تعیین نہیں ہے۔ (فتح الباري:726/3)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1692
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1740
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1740
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1740
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے ہی روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے میدان عرفات میں نبی ﷺ کا خطبہ خود سناتھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عام طور پر حج کے چھ دن ہیں جو آٹھ ذوالحجہ سے شروع ہو کر تیرہ ذوالحجہ تک رہتے ہیں۔ پہلے دن کو یوم الترویہ، دوسرے کو یوم عرفہ، تیسرے کو یوم النحر، چوتھے کو یوم القر، پانچویں کو یوم نفر اول اور چھٹے کو یوم نفر ثانی کہا جاتا ہے۔ (2) ان دنوں موقع محل کی مناسبت سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کے لیے امام کو چاہیے کہ وہ خطبہ دینے کا اہتمام کرے۔ پہلا خطبہ جو نویں ذوالحجہ کو دیا جاتا ہے وہ نماز سے پہلے اور باقی تین خطبے اس کے بعد ہیں۔ ان میں سے ایک خطبہ قربانی کے دن ہے۔ کچھ لوگ اس دن خطبہ کے مسنون ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وصایا ہیں جو نبی ﷺ نے امت کو ارشاد فرمائی ہیں، اس میں حج سے متعلقہ احکام و مسائل نہیں ہیں۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ راوی کے نزدیک یہ خطبہ ہے جیسا کہ عرفات کے دن خطبہ دیا تھا۔ اس بنا پر قربانی کے دن خطبہ دینا بھی سنت نبوی ہے، یہ عام وعظ و ارشاد نہیں۔ چونکہ حج کا ایک مقصد عالم اسلام کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دینا ہے، اس مقصد کے لیے بہترین ذریعہ یہ خطبات ہیں، اس لیے خطیب کو چاہیے کہ وہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل پر بھی روشنی ڈالے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی، نیز باہمی اتفاق و اتحاد کی دعوت دے، حج بیت اللہ کا یہی مقصود اعظم ہے۔ (3) حضرت ابن عباس ؓ سے دوسری روایت میں میدان عرفات میں خطبہ دینے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ راوی حدیث ابن عباس ؓ عرفہ کے دن وعظ و ارشاد کو خطبہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس دن خطبہ کے مسنون ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں تو وہی راوی قربانی کے دن وعظ و نصیحت کو بھی خطبہ کا نام دیتے ہیں تو اسے اختلاف کی بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال دس تاریخ کو خطبہ دینا بھی مسنون ہے۔ (4) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک متابعت بھی بیان کی ہے جسے امام احمد بن حنبل ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اگرچہ محل خطبہ کی تعیین نہیں ہے۔ (فتح الباري:726/3)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن زید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا، آپ ؓ نے بتلایا کہ میدان عرفات میں رسول کریم ﷺ کا خطبہ میں نے خود سنا تھا۔ اس کی متابعت ابن عیینہ نے عمرو سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ یوم عرفہ کا خطبہ ہے اور منیٰ کا خطبہ بعد والا ہے، جو دسویں تاریخ کو دیا تھا اس میں صاف یوم النحر کی وضاحت موجود ہے۔ فهذا الحدیث الذي وقع في الصحیح أنه صلی اللہ علیه وسلم خطب به یوم النحر و قد ثبت أنه خطب به قبل ذلك یوم عرفة۔(فتح الباري)یعنی صحیح بخاری کی حدیث میں صاف مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے یوم النحر میں خطبہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس سے پہلے آپ ﷺ نے یہی خطبہ یوم عرفا ت میں بھی پیش فرمایا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): I heard the Prophet (ﷺ) delivering a sermon at 'Arafat.