باب: اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Whosoever considers not to repeat ablution except if something is discharged or passed from exit (front or back private parts))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ ” عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ( آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری ) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم ) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے ( اپنی ) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن ؓ پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔
177.
حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک نماز پڑھنے والا (حدث کی) آواز نہ سنے، یا بدبو نہ محسوس کرے، اس وقت تک اپنی نماز نہ چھوڑے۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ حالت نماز میں اسے خروج ریح کا خیال گزرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’وہ نماز نہ توڑے جب تک آواز نہ سنے، یا بو محسوس نہ کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 137) مقصد یہ ہے کہ جب اسے حدث کا یقین ہو جائے تو نماز چھوڑ دے۔ آواز کا سننا یا بدبو کا پانا بنیادی شرط نہیں، کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی سونگھنے اور سننے کی قوت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ نہ آواز سن سکتے ہیں اور نہ بدبومحسوس کر تے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شبہ یقین کو زائل نہیں کرسکتا اور اس قسم کے شکوک وشبہات کی کوئی حیثیت نہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ بول وبراز کے راستے سے جو چیز خارج ہو، وہ ناقض وضو ہے، چنانچہ اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:(لَا يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ) ’’شک کی بنیاد پروضو نہ کرے تاآنکہ اسے یقین ہوجائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ شبہ کی بنیاد پر نمازتوڑنا درست نہیں، جب تک یقین نہ ہو کہ کوئی ناقض وضو حالت پیش آئی ہے۔ عمر رسیدگی میں ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں، لیکن نماز کے متعلق اوہام وخیالات کو بنیاد بنا کر نماز ختم کرنا مناسب نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
178
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
177
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
177
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
177
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نواقض وضو(وضو توڑدینے والے اسباب) بیان فرمائے ہیں۔اس سلسلے میں وہ اپنی مستقل رائے رکھتے ہیں نہ تو کلی طور پر شوافع وموالک سے متفق ہیں اور نہ مکمل طور پر احناف ہی کے مخالف ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ عنوان دواجزاء سے مرکب ہے۔(الف)۔سبیلین،یعنی قبل ودبرسے جو چیز نکلتی ہے وہ ناقض وضو ہے،خواہ طبعی طریقے سے نکلے یاغیرطبعی طریقے سے برآمد ہو اورخواہ کم ہو یازیادہ۔اسے ایجابی جز کانام دیا ہے۔(سَبِيلَين)کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے کوئی چیز خارج ہوتو وہ ناقض وضو نہیں۔اسے سلبی جز کا نام دیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ائمہ عظام کے دس آثار پیش کیے ہیں۔ان میں سے کچھ تعلق ایجابی جز سے ہے جبکہ بعض کاتعلق سلبی جز سے ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خون ،قے نکسیر،پیپ،مس مراہ،مس ذکر ،نواقض وضو سے نہیں۔ان میں سے پہلی چار میں آپ نے احناف کی مخالفت کی ہے جبکہ آخری دور میں شوافع سے اختلاف کیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مؤقف کو مضبوط کرنے کے لیے آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے جس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔اس آیت کریمہ ،قول عطاء اور فرمودہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق ایجابی جز سے ہے جبکہ باقی آثارکاتعلق سلبی جز سے ہے۔اب ہم علامہ سندھی کے الفاظ میں اس آیت کریمہ کی وضاحت کرتے ہیں جسے ا مام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بطوردلیل پیش کیا ہے۔جب پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہوتو تیمم کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں دو قسم کے اسباب بیان ہوئے ہیں:(الف)۔موجبات غسل، یعنی (حَدَثِ اكبر"أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ ") کا ذکر بطورکنایہ ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے عورتوں سے جماع مراد لیا ہے،یہ الفاظ حدث اکبر کی تمام صورتوں پر مشتمل ہیں۔(الف)۔موجبات وضو ،یعنی حدث اصغر کے لیے:( أَوْجَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ)کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں جو دونوں راستوں سے نکلنے والی تمام چیزوں کے لیے کنایہ ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ (مَاخَرَجَ مِن سَبِيلَين) کے علاوہ اور کوئی ناقض وضو نہیں ہے۔( حاشیۃ السندی 45/1۔) دراصل نواقض وضو كے متعلق ائمہ کرام کا اختلاف ،علت اور مناط کی بنا پر ہے۔احناف اور حنابلہ کے نزدیک نقض وضو کی علت خروج نجاست ہے،خواہ کسی راستے سے ہو۔ان کے نزدیک خون وغیرہ کا نکل آنا بھی نواقض وضو سے ہوگا۔شوافع کے نزدیک وضو ٹوٹنے کی علت کسی چیز کا مخرجین سے نکلناہے۔ان کے نزدیک(مَخرجَيَن) سے کوئی کنکری یاکیڑا برآمد ہواتو اس بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔موالک کے نزدیک مخرجین سے خروج کے ساتھ ساتھ اس کا معتاد ہونا بھی ضروری ہے۔ان کے نزدیک استحاضہ اور سلسل البول سے وضو نہیں ٹوٹے گا جبکہ شوافع کے نزدیک یہ نواقض وضو ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں اپنی ایک مستقل رائے رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک مس ذکر،مس مراہ،اورقہقہ وغیرہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔نواقض وضو کے متعلق اختلاف کی بنیاد کے متعلق علامہ ابن رشد فرماتے ہیں،بدن سے نکلنے والی نجاست کے تین احوال ہیں جو حسب ذیل ہیں۔(الف) نفس خروج نجاست۔(ب)۔محل خروج۔کچھ حضرات توصرف یہ دیکھتے ہیں کہ نفس خروج نجاست سے وضو ٹوٹ جاتا ہے قطع نظر اس سے کہ خروج کہاں سے اور کیسے ہوا؟ان کے نزدیک نجاست کا بدن سے خارج ہونابدن کی طہارت کو زائل کردیتا ہے ۔کچھ فقہاء نفس خروج کے ساتھ محل خروج کی بھی رعایت کرتے ہیں۔ان کے نزدیک نجاست کا خروج بول وبراز کے راستے ہوتو ناقض وضو ہوگا۔ان راستوں سے جو چیز بھی برآمد ہوگی اس سے وضو ٹوٹ جائے گا،خواہ اس کاخروج معتاد ہو یاغیر معتاد۔اس کا خروج بحالت صحت ہو یا بحالت مرض۔کچھ ائمہ کرام نفس خروج اور مخرج کے ساتھ صفت خروج کا بھی اعتبار کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ہروہ نجاست جوبول وبراز کے راستے سے معتاد طریقے پر بحالت صحت نکلے ،وہ ناقض وضو ہے ۔ان کے نزدیک کنکری یا کیڑے کا نکلنا ناقض وضو نہیں کیونکہ ان کا نکلنا غیر معتاد طریقے پر ہوتا ہے۔اسی طرح سلسل البول اور استخاضہ بھی نواقض وضو سے نہیں کیونکہ یہ مرض کی حالت میں ہوتا ہے۔یہ حضرات نقض وضو کے لیے حالتِ صحت کی شرط لگاتے ہیں۔ظاہر کتاب وسنت سے جن چیزوں کا بالاتفاق ناقض وضو ہونا ثابت ہے وہ بول وبراز ،ریح اور مذی وغیرہ ہیں جو سبیلین میں سے خارج ہوتے ہیں۔اب آگے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ نقض وضو کا تعلق ان کے اعیان سے ہے یا ان کے کسی خاص وصف کی بناپر ہے،چنانچہ کچھ حضرات کا فیصلہ ہے کہ نقض وضو کا تعلق اعیان سے ہے ۔ان کے نزدیک نقض وضو کا حکم انھی اشیاء میں محصور رہے گا۔اگریہ چیزیں بحالت صحت جسم سے خارج ہوتی ہیں تو ناقض ہیں بصورت دیگرنہیں۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ نقض وضو کاتعلق مذکورہ اشیاء سے خاص طور پر نہیں بلکہ انھیں گندی اور نجس ہونے کی بنا پرنواقض وضو قراردیا گیا ہے۔اس لیے نقض وضو کا مدار ان نجاستوں پر ہے جو بدن سے خارج ہوں،خواہ ان کا خروج بول وبراز کے راستے سے ہو یا کسی اور طریقے سے۔بعض حضرات نے کہا ہے کہ نقض وضو کا مدارتو اسی پر ہے کہ یہ ناپاک چیزیں ہیں اور جسم سے خارج ہورہی ہیں مگر ان سب کا محل متعین ہے کہ یہ بول وبراز کے راستے سے نکلتی ہیں۔اس لیے وہی نجاستیں نواقض وضو قرار پائیں گی جن کا خروج سبیلین سے ہو،خواہ معتاد طریقے سے ہو یا غیر معتاد طریقے سے،خواہ ان کاخروج بحالت صحت ہو یا بحالت مرض۔بہرحال انھیں نواقض وضو خیال کیا جائے گا۔جسم کے دوسرے حصے سے نکلنے والی یہ نجاستیں نواقض وضو شمار نہیں ہوں گی۔( بدایۃ المجتھد 68/1۔) ابن رشد کی تحقیق کے مطابق دیکھاجاسکتاہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں اپنی مستقل رائے رکھتے ہیں۔وہ کلی طور پر کسی خاص مکتب فکر کی طرف رجحان نہیں رکھتے،چنانچہ پیش کردہ آثار سے صاف طور پر یہی معلوم ہوتا ہے۔واللہ اعلم۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےجوآثار نقل فرمائے ہیں ان کی تخریج وتفصیل حسب ذیل ہے:1۔حضرت عطا بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا اثر صحیح سند کے ساتھ مصنف ابن ابی شیبہ (72/1) میں موصولاً بیان ہوا ہے۔حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ،قتادہ اور حماد بن ابی سلیمان نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دُبر یا قبل سے کسی کیڑے کا برآمدہونا کبھی کبھار ہوتاہے،اس سےوضو نہیں ٹوٹتا۔2۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (172/1) اور سعید بن منصور نے موصولاً بیان کیا ہے۔اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی بیان کی جاتی ہے۔لیکن وہ صحیح نہیں ہے۔اس کا تعلق عنوان کے سلبی جز سے ہے۔یہاں تین چیزیں ہیں:(الف)۔تبسم،جسے مسکراہٹ کہا جاتا ہے اس میں آواز نہیں ہوتی دوران نماز میں ایساکرنے سے نہ وضو ٹوٹتاہے اور نہ نماز ہی باطل ہوتی ہے۔(ب)۔ضحک،اس سے مراد وہ ہنسی ہے جس کی آواز آدمی خود سنے لیکن پاس والے نہ سن سکیں۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان اس سے متعلق ہے۔اس سے نماز جاتی رہے گی لیکن وضو نہیں ٹوٹے گا۔(ج)۔قہقہ۔ایسی آواز سےہنسنا کہ دوسرے بھی سنیں۔احناف کے نزدیک اس سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں۔یہ وضوبحق نماز ختم ہوجاتاہے،بحق تلاوت وضوباتی رہتا ہے۔لیکن قہقے کے متعلق وضو اور نماز کے بطلان پر جو حدیث پیش کی جاتی ہے۔وہ عقلاً ونقلاً صحیح نہیں۔ویسے بھی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بعید ہے کہ دوران نماز میں اللہ کے حضور اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوں اور ایک اندھے آدمی کے کنویں میں گرنے سے وہ قہقہ مارکر ہنسنے لگیں۔( فتح الباری 368/1۔) حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو سعید بن منصور اور ابن منذر(237/1) نے موصولاً بیان کیا ہے کہ وضو کرنے کےبعد ناخن کاٹنے یا بال منڈوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے،جبکہ مجاہد،حکم بن عتیبہ اور حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے،لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔اور وضو کے بعد موزے اتارنے کا مسئلہ ،ابن منذر(457/1) اور مصنف ابن ابی شیبہ (342/1) نے بیان کیا ہے۔4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اثر مسند احمد(410/2) اور جامع ترمذی (74) وغیرہ میں مرفوعاً بیان کیا گیا ہے۔اس کا تعلق بھی عنوان کے ایجابی جز سے ہے۔5۔روایت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسند احمد(359/3) سنن ابوداؤد (198) دارقطنی ،صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن حبان اور مستدرک حاکم میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔اس اسے احناف کاردمقصود ہے کیونکہ ان کے نزدیک بہنے والا خون ناقض وضو ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دورانِ نماز میں بہنے والے خون سے نماز اور وضو باطل نہیں ہوتا،اس لیے آگے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول بیان کیاہے۔اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی صحیح روایت ہے کہ آپ کا خون بہہ رہاتھا لیکن آپ نے نماز جاری رکھی۔( فتح الباری 368/1۔)5۔امام طاؤس کااثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ (252/1) میں مروی ہے کہ خون بہنے سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔محمد بن علی کا قول ہے کہ اگر نکسیر جاری پانی کی طرح بہہ پڑے تب بھی اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔( فتح الباری 368/1۔ ) عطاء ابن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا اثر بھی مصنف عبدالرزاق (1/145) میں موجود ہے۔7۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل مصنف عبدالرزاق (145/1) وغیرہ میں موصولاً بیان ہوا ہے ۔اس میں مزید یہ ہے کہ آپ نے نماز بھی ادا کی۔8۔حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں بیان کیا ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے ،نیز مصنف عبدالرزاق(148/1) میں بھی موصولاً بیان ہوا ہے۔9۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے سینگی سے متعلق آثار کومصنف ابن ابی شیبہ(1/80۔81) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے،ان کے نزدیک نظافت کے لیے سینگی لگانے کی جگہ کو دھویا جائے ۔ان مختلف آثار کے پیش نظر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ہے کہ بول وبراز کے راستے سے نکلنے والی ہر چیز ناقض وضو ہے،اس کے علاوہ ضحک اور خون وغیرہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ ” عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ( آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری ) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم ) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے ( اپنی ) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن ؓ پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک نماز پڑھنے والا (حدث کی) آواز نہ سنے، یا بدبو نہ محسوس کرے، اس وقت تک اپنی نماز نہ چھوڑے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ حالت نماز میں اسے خروج ریح کا خیال گزرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’وہ نماز نہ توڑے جب تک آواز نہ سنے، یا بو محسوس نہ کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 137) مقصد یہ ہے کہ جب اسے حدث کا یقین ہو جائے تو نماز چھوڑ دے۔ آواز کا سننا یا بدبو کا پانا بنیادی شرط نہیں، کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی سونگھنے اور سننے کی قوت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ نہ آواز سن سکتے ہیں اور نہ بدبومحسوس کر تے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شبہ یقین کو زائل نہیں کرسکتا اور اس قسم کے شکوک وشبہات کی کوئی حیثیت نہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ بول وبراز کے راستے سے جو چیز خارج ہو، وہ ناقض وضو ہے، چنانچہ اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:(لَا يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ) ’’شک کی بنیاد پروضو نہ کرے تاآنکہ اسے یقین ہوجائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ شبہ کی بنیاد پر نمازتوڑنا درست نہیں، جب تک یقین نہ ہو کہ کوئی ناقض وضو حالت پیش آئی ہے۔ عمر رسیدگی میں ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں، لیکن نماز کے متعلق اوہام وخیالات کو بنیاد بنا کر نماز ختم کرنا مناسب نہیں۔
ترجمۃ الباب:
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یا تم میں سے کوئی جائے ضرورت سے آیا ہو۔" اور حضرت عطاء نے کہا: جس کی دبر سے کیڑا یا عضو مستور سے جوں کی طرح کوئی چیز نکلے تو وہ دوبارہ وضو کرے۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا: اگر کوئی دوران نماز میں ہنس دے تو وہ نماز دوبارہ پڑھے لیکن وضو دوبارہ نہ کرے۔ اور حسن بصری نے کہا: جس نے اپنے (سر کے) بال منڈوائے یا ناخن کترائے یا اپنے موزے اتار ڈالے تو اس پر وضو کا اعادہ نہیں، نیز حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: وضو لازم نہیں ہوتا مگر حدث (بے وضو ہونے) سے۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے بیان کیا جاتا ہے کہ نبی ﷺ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو تیر لگا، اس میں سے بہت سا خون بہا لیکن اس نے رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پڑھتا رہا۔ اور حسن بصری نے کہا: مسلمان اپنے زخموں سے چور ہونے کے باوجود ہمیشہ نماز پڑھتے رہے۔ طاؤس، محمد بن علی، عطاء اور حجاز کے اہل علم کا کہنا ہے کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓہ نے ایک دفعہ پھنسی کو دبایا تو اس سے خون نکل آیا، لیکن انہوں نے وضو نہیں کیا۔ اور حضرت ابن ابی اوفی ؓ نے خون تھوکا، لیکن نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابن عمر ؓ اور امام حسن بصری نے کہا: جو کوئی سینگی لگوائے تو صرف سینگی کی جگہ دھو ڈالے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے، وہ زہری سے، وہ عباد بن تمیم سے، وہ اپنے چچا سے، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نمازی نماز سے) اس وقت تک نہ پھرے جب تک (ریح کی) آواز نہ سن لے یا اس کی بو نہ پا لے۔
حدیث حاشیہ:
خلاصہ حدیث یہ ہے کہ جت تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک محض کسی شبہ کی بنا پر نماز نہ توڑے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abbas bin Tamim (RA): My uncle said: The Prophet (ﷺ) said, "One should not leave his prayer unless he hears sound or smells something."