باب : جس نے مدینہ طیبہ کے قریب پہنچ کر اپنی سواری تیز کردی (تاکہ جلد سے جلداس پاک شہر میں داخلہ نصیب ہو )
)
Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: To proceed faster on reaching his town)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1802.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ جب کسی سفر سے مدینہ طیبہ واپس آتے اور مدینہ کی راہوں کو دیکھتے تو (فرط شوق سے) اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے۔ اگر کوئی اور سواری ہوتی تو اسے بھی ایڑی لگاتے۔ ابوعبد اللہ (امام بخاری ؒ )نے کہاکہ حارث بن عمیر نے حمید ہی کے طریق سے اس روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کی محبت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔ اسماعیل نے حمید سےدرجات كےبجائے جدرات کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (اور) یہ الفاظ بیان کرنے میں حارث بن عمیر نے اسماعیل کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) جس روایت میں درجات المدينة کے بجائے جدرات المدينة ہے اس کے معنی مدینہ کی عمارتیں ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ کی عمارتیں اور مکانات نظر آتے تو فراوانئ شوق کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز کر دیتے، اس سے مدینہ طیبہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز اس سے وطن کی محبت اور اس سے تعلق خاطر (دلی لگاؤ) کی مشروعیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ (2) انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس جگہ سے محبت ایک فطری امر ہے۔ اسلام میں یہ محبت مذموم نہیں، البتہ اس کے متعلق یہ حدیث بالکل بے اصل ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ (فتح الباري:783/3) جدرات المدینہ والی روایت خود امام بخاری ؒ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1886) اسی طرح حارث بن عمیر کی متابعت کو امام احمد نے موصولا بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:159/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1751
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1802
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1802
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1802
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ جب کسی سفر سے مدینہ طیبہ واپس آتے اور مدینہ کی راہوں کو دیکھتے تو (فرط شوق سے) اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے۔ اگر کوئی اور سواری ہوتی تو اسے بھی ایڑی لگاتے۔ ابوعبد اللہ (امام بخاری ؒ )نے کہاکہ حارث بن عمیر نے حمید ہی کے طریق سے اس روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کی محبت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔ اسماعیل نے حمید سےدرجات كےبجائے جدرات کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (اور) یہ الفاظ بیان کرنے میں حارث بن عمیر نے اسماعیل کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) جس روایت میں درجات المدينة کے بجائے جدرات المدينة ہے اس کے معنی مدینہ کی عمارتیں ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ کی عمارتیں اور مکانات نظر آتے تو فراوانئ شوق کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز کر دیتے، اس سے مدینہ طیبہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز اس سے وطن کی محبت اور اس سے تعلق خاطر (دلی لگاؤ) کی مشروعیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ (2) انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس جگہ سے محبت ایک فطری امر ہے۔ اسلام میں یہ محبت مذموم نہیں، البتہ اس کے متعلق یہ حدیث بالکل بے اصل ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ (فتح الباري:783/3) جدرات المدینہ والی روایت خود امام بخاری ؒ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث:1886) اسی طرح حارث بن عمیر کی متابعت کو امام احمد نے موصولا بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:159/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے حمید طویل نے خبر دی انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا کہ آپ ؓ نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؒنے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ ’’مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔‘‘ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس ؓ نے، انھوں نے (درجات کے بجائے ) جدرات کہا، اس کی متابعت حارث بن عمیر نے کی۔
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس طرز عمل سے وطن کی محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، اس جگہ سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، سفر میں بھی اپنے وطن کا اشتیاق باقی رہتا ہے۔ الغرض وطن سے محبت ایک قدرتی بات ہے اور اسلام میں یہ مذموم نہیں ہے مشہور مقولہ ہے ”حب الوطن من الإیمان“وطنی محبت بھی ایمان میں داخل ہے۔”جدرات“ یعنی مدینہ کے گھروں کی دیواروں پر نظر پڑتی تو آپ ﷺ سواری تیز فرما دیتے تھے۔ بعض روایتوں میں ”دوحات“ کا لفظ آیا ہے یعنی مدینہ کے درخت نظر آنے لگتے تو آپ ﷺ اپنے وطن کی محبت میں سواری تیز کردیتے۔ آپ حج کے یا جہاد وغیرہ کے جس سفر سے بھی لوٹتے اسی طرح اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Humaid (RA): Anas said, "Whenever Allah's Apostle (ﷺ) returned from a journey, he, on seeing the high places of Medina, would make his she-camel proceed faster; and if it were another animal, even then he used to make it proceed faster." Narrated Humaid that the Prophet (ﷺ) used to make it proceed faster out of his love for Medina.