باب : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ گھروں میں دروازوں سے داخل ہوا کرو
)
Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: "... So enter houses through their proper doors")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1803.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ یہ آیت کریمہ ہمارے متعلق نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہواکہ انصار جب حج کرتے اور واپس آتے تو دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل نہ ہوتے تھے بلکہ گھروں کی پچھلی جانب سے اندرآتے۔ ایک انصاری شخص آیا اور وہ دروازے سے اپنے گھر داخل ہوا تو اس وجہ سے اسے شرمندہ کیا گیا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’گھروں کو ان کی پشتوں سے داخل ہونا نیکی نہیں ہے، البتہ نیک وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈر جائے اور تم اپنے گھروں میں دروازوں سے آؤ۔‘‘
تشریح:
دور جاہلیت میں قریش کے علاوہ لوگ حج سے فراغت کے بعد جب اپنے گھروں کو واپس ہوتے تو گھر کے دروازے سے اندر آنے کو معیوب خیال کرتے تھے بلکہ اگر دروازے کا سایہ سر پر پڑ جاتا تو اسے منحوس خیال کرتے، اسی لیے وہ گھروں کی دیواریں پھاند کر اندر آتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے سے اس غلط خیال کی تردید فرمائی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1752
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1803
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1803
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1803
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ یہ آیت کریمہ ہمارے متعلق نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہواکہ انصار جب حج کرتے اور واپس آتے تو دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل نہ ہوتے تھے بلکہ گھروں کی پچھلی جانب سے اندرآتے۔ ایک انصاری شخص آیا اور وہ دروازے سے اپنے گھر داخل ہوا تو اس وجہ سے اسے شرمندہ کیا گیا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’گھروں کو ان کی پشتوں سے داخل ہونا نیکی نہیں ہے، البتہ نیک وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈر جائے اور تم اپنے گھروں میں دروازوں سے آؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
دور جاہلیت میں قریش کے علاوہ لوگ حج سے فراغت کے بعد جب اپنے گھروں کو واپس ہوتے تو گھر کے دروازے سے اندر آنے کو معیوب خیال کرتے تھے بلکہ اگر دروازے کا سایہ سر پر پڑ جاتا تو اسے منحوس خیال کرتے، اسی لیے وہ گھروں کی دیواریں پھاند کر اندر آتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے سے اس غلط خیال کی تردید فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براءبن عازب ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ انصار جب حج کے لیے آتے تو (احرام کے بعد ) گھروں میں دروازوں سے نہیں جاتے بلکہ دیواروں سے کود کر (گھر کے اندر ) داخل ہوا کرتے تھے پھر (اسلام لانے کے بعد ) ایک انصاری شخص آیا اور دروازے سے گھر میں داخل ہو گیا اس پر لوگوں نے لعنت ملامت کی تو یہ وحی نازل ہوئی کہ ”یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے سے (دیواروں پر چڑھ کر ) آؤ بلکہ نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اخیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔“
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں قریش کے علاوہ عام غریب لوگ حج سے واپس ہوتے وقت گھروں کے دروازوں سے آنا معیوب سمجھتے اور دورازے کا سایہ سر پر پڑنا منحوس جانتے، اس لیے گھروں کی دیواروں سے پھاند کر آتے۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید۔ وہ آنے والا انصاری جس کا روایت میں ذکر ہے قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں اس کی صراحت ہے اس کا نام رفاعہ بن تابوت بتایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اسلامی اساسی امور کے بیان پر مشتمل ہے۔ آنے والے بزرگ کی تفصیلات کے سلسلے میں حافظ ابن حجر کا بیان یہ ہے : فِي صَحِيحَيْهِمَا مِنْ طَرِيقِ عَمَّارِ بْنِ زُرَيْقٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَتْ قُرَيْشٌ تُدْعَى الْحُمْسَ وَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنَ الْأَبْوَابِ فِي الْإِحْرَامِ وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ وَسَائِرُ الْعَرَبِ لَا يَدْخُلُونَ مِنَ الْأَبْوَابِ فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بُسْتَانٍ فَخَرَجَ مِنْ بَابِهِ فَخَرَجَ مَعَهُ قُطْبَةُ بْنُ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قُطْبَةَ رَجُلٌ فَاجِرٌ فَإِنَّهُ خَرَجَ مَعَكَ مِنَ الْبَابِ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ رَأَيْتُكَ فَعَلْتَهُ فَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتَ قَالَ إِنِّي أَحْمَسِيٌّ قَالَ فَإِنَّ دِينِي دِينُكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ۔(فتح الباري)یعنی قریش کو حمس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور صرف وہی حالت احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہو سکتے تھے، ایسا عہد جاہلیت کا خیال تھا اور انصار بلکہ تمام اہل عرب اگر حالت احرام میں اپنے گھروں کو آتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر آیا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ ایک باغ کے دروازے سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ساتھ یہ قطبہ بن عامر انصاری بھی دروازے سے ہی آگئے۔ اس پر لوگوں نے ان کو لعن طعن شروع کی بلکہ فاجر تک کہہ دیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے بھی ایسا کیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ آپ نے کیا تو آپ کی اتباع میں میں نے بھی ایسا کیا، آپ ﷺ نے فرمایا میں تو حمسی ہوں انہوں نے کہا کہ حضور دین اسلام جو آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ishaq (RA): I heard Al-Bara' saying, "The above Verse was revealed regarding us, for the Ansar on returning from Hajj never entered their houses through the proper doors but from behind. One of the Ansar came and entered through the door and he was taunted for it. Therefore, the following was revealed: -- "It is not righteousness That you enter the houses from the back, But the righteous man is He who fears Allah, Obeys His order and keeps away from What He has forbidden So, enter houses through the proper doors." (2.189)