Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: Travelling is a kind of torture)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1804.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’سفر عذاب کا ایک حصہ ہے جو کھانے پینے اور سونے کو موقوف کردیتا ہے لہٰذا جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے گھر جلدی واپس آنا چاہیے۔‘‘
تشریح:
شارح بخاری ابن منیر ؒ لکھتے ہیں: اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اپنے گھر میں اہل و عیال کے ساتھ رہنا مجاہدے سے افضل ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: ابن منیر کی یہ بات محل نظر ہے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو حج کے آخری باب میں لا کر ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جس کے الفاظ یہ ہیں: (أذا قضی أحدكم حجه فليعجل الرحلة إلی أهله، فإنه أعظم لأجره)’’جب تم میں سے کوئی اپنا حج مکمل کرے تو اسے اپنے گھر واپس آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیھقي:259/5، والصحیحة للألباني، حدیث:1379) اہل خانہ سے زیادہ دیر تک غیر حاضر رہنا اچھا نہیں۔ اگرچہ ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘ کا محاورہ بھی مشہور ہے، تاہم ضرورت پوری ہونے کے بعد جلدی گھر واپس آنے ہی میں عافیت ہے کیونکہ گھر میں آرام اور سکون میسر ہوتا ہے جس سے دین و دنیا کے معاملات سر انجام دینے میں مدد ملتی ہے، نمازیں اور جمعہ وغیرہ باقاعدہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1753
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1804
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1804
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1804
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
تمہید باب
ابن تیمیہ نے کہا اس باب کو لاکر امام بخاری نے اشارہ کیا کہ گھر میں رہنا مجاہدہ سے افضل ہے، حافظ نے کہا اس پر اعتراض ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہو کہ حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر آدمی اپنے گھر واپس ہونے کے لیے جلدی کرے۔ گھر والوں سے زیادہ دن تک غیر حاضر ہو کر رہنا اچھا نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’سفر عذاب کا ایک حصہ ہے جو کھانے پینے اور سونے کو موقوف کردیتا ہے لہٰذا جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے گھر جلدی واپس آنا چاہیے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
شارح بخاری ابن منیر ؒ لکھتے ہیں: اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اپنے گھر میں اہل و عیال کے ساتھ رہنا مجاہدے سے افضل ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: ابن منیر کی یہ بات محل نظر ہے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو حج کے آخری باب میں لا کر ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جس کے الفاظ یہ ہیں: (أذا قضی أحدكم حجه فليعجل الرحلة إلی أهله، فإنه أعظم لأجره)’’جب تم میں سے کوئی اپنا حج مکمل کرے تو اسے اپنے گھر واپس آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیھقي:259/5، والصحیحة للألباني، حدیث:1379) اہل خانہ سے زیادہ دیر تک غیر حاضر رہنا اچھا نہیں۔ اگرچہ ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘ کا محاورہ بھی مشہور ہے، تاہم ضرورت پوری ہونے کے بعد جلدی گھر واپس آنے ہی میں عافیت ہے کیونکہ گھر میں آرام اور سکون میسر ہوتا ہے جس سے دین و دنیا کے معاملات سر انجام دینے میں مدد ملتی ہے، نمازیں اور جمعہ وغیرہ باقاعدہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے سمی نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز ) سے روک دیتا ہے، اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کرچکے تو فوراً گھر واپس آجائے۔
حدیث حاشیہ:
یہ اس زمانے میں فرمایا گیا جب گھر سے باہر نکل کر قدم قدم پر بے حد تکالیف اور خطرات کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا ۔ آج کل سفر میں بہت آسانیاں مہیا ہو گئی ہیں مگر پھر بھی رسول برحق کا فرمان اپنی جگہ ہے ہوائی جہاز موثر جس میں بھی سفر ہو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت سے ناموافق حالات سامنے آتے ہیں جن کو دیکھ کر بےساختہ منہ سے نکل پڑتا ہے سفر بالواقع عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ۔ ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ سفر عذاب کا ٹکڑا کیوں ہے فوراً جواب دیا لأن فیه فراق الأحباباس لیے کہ سفر میں احباب سے جدائی ہو جاتی ہے اور یہ بھی ایک روحانی عذاب ہے ۔ امام بخاریؒ کا منشائے باب یہ ہے کہ حاجی کے بعد جلد ہی وطن کو واپس ہونا چاہیے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Traveling is a kind of torture as it prevents one from eating, drinking and sleeping properly. So, when one's needs are fulfilled, one should return quickly to one's family."