کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب: اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو وہ کیا کرے
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: If one is prevented from 'Umra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1809.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو (مقام حدیبیہ پر) روک دیا گیا تو آپ نے اپنا سر مبارک منڈوایا، اپنی بیویوں سے صحبت کی اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کیا، پھر آئندہ سال (نیا)عمرہ کیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کے پس منظر کو امام بخاری ؒ نے اپنی شرط کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع نے جناب حجاج بن عمرو انصاری سے سوال کیا کہ اگر کوئی بحالت احرام بیت اللہ سے روک دیا جائے تو وہ کیا کرے؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنایا کہ جو لنگڑا ہو جائے یا اس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا روک دیا جائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اسے ادا کرے۔ حضرت عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ پھر میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تو آپ نے اپنا سر منڈوایا، قربانی ذبح کی اور اپنی بیویوں سے ہم بستر ہوئے، پھر آئندہ سال (نیا) عمرہ کیا۔ (فتح الباري:11/4) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص کسی رکاوٹ کی وجہ سے احرام کھول دے اسے آئندہ سال اس کی قضا دینی ضروری ہے، جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک ایسا کرنا ضروری نہیں۔ اس کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1757
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1809
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1809
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1809
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو محصر کے لیے حلال ہونا حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں، حدیث باب میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور آپ ﷺ نے حدیبیہ میں احصار کی وجہ سے ایسے کھول دیا۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو (مقام حدیبیہ پر) روک دیا گیا تو آپ نے اپنا سر مبارک منڈوایا، اپنی بیویوں سے صحبت کی اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کیا، پھر آئندہ سال (نیا)عمرہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے پس منظر کو امام بخاری ؒ نے اپنی شرط کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع نے جناب حجاج بن عمرو انصاری سے سوال کیا کہ اگر کوئی بحالت احرام بیت اللہ سے روک دیا جائے تو وہ کیا کرے؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنایا کہ جو لنگڑا ہو جائے یا اس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا روک دیا جائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اسے ادا کرے۔ حضرت عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ پھر میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو روک دیا گیا تو آپ نے اپنا سر منڈوایا، قربانی ذبح کی اور اپنی بیویوں سے ہم بستر ہوئے، پھر آئندہ سال (نیا) عمرہ کیا۔ (فتح الباري:11/4) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص کسی رکاوٹ کی وجہ سے احرام کھول دے اسے آئندہ سال اس کی قضا دینی ضروری ہے، جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک ایسا کرنا ضروری نہیں۔ اس کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ نے ان سے فرمایا رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ کے سال مکہ جانے سے روک دیئے گئے تو آپ نے حدیبیہ ہی میں اپنا سر منڈایا اور ازواج مطہرات کے پاس گئے اور قربانی کو نحر کیا، پھر آئندہ سال ایک دوسرا عمرہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ﷺ نے اگلے عمرے کی قضاءکی بلکہ آپ ﷺ نے سال آئندہ دوسرا عمرہ کیا اور بعض نے کہا کہ احصار کی حالت میں اس حج یا عمرے کی قضا واجب ہے اور آپ ﷺ کا یہ عمرہ اگلے عمرے کی قضا کا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was prevented from performing ('Umra) Therefore, he shaved his head and had sexual relations with his wives and slaughtered his Hadi and performed Umra in the following year.