کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب : اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اگر تم میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں (جوؤں کی ) کوئی تکلیف ہو تو اسے روزے یا صدقے یا قربانی کا فدیہ دینا چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: The Statement of Allah Ta'ala : "... And whosoever of you is ill or has an ailment in his scalp, (necessitating shaving), he must pay a Fidya ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یعنی اسے اختیار ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو تین دن روزہ رکھے
1814.
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’شاید تمھاری جوئیں تمھیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول اللہ ﷺ !نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوا دو، پھر تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کرو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت محرم اپنا سر منڈوا سکتا ہے، پھر اس پر کفارہ واجب ہے جس کی تفصیل آیت کریمہ اور حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ (2) امام بخاری ى نے دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ فدیہ دینے میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ ؓ کو اختیار دیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ، حضرت عطاء اور حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ "أو" استعمال ہوا ہے وہ ’’اختیار‘‘ کے لیے ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی تائید میں ایک روایت بھی درج کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ ؓ کو فرمایا: ’’اگر چاہو تو بکری ذبح کرو، اگر چاہو تو تین دن کے روزے رکھ لو اور اگر چاہو تو مساکین کو کھانا کھلا دو۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1857) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، حضرت کعب بن عجرہ ؓ کہتے ہیں: مقام حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میرے سر سے جوئیں گر رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جوئیں تیرے لیے تکلیف کا باعث ہیں؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوا دو۔‘‘ چنانچہ مذکورہ آیت مبارکہ میرے متعلق نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: ’’تین دن کے روزے رکھو یا چھ مسکینوں میں ایک فرق غلہ تقسیم کرو یا جو قربانی میسر ہو اسے ذبح کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث:1815) دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ؓ نے اپنا سر منڈوا دیا تھا اور کفارے کے طور پر تین دن کے روزے رکھے تھے۔ اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے چھ مساکین کو کھانا کھلانے کا انتخاب کیا تھا لیکن اس کی سند صحیح نہیں۔ (فتح الباري:21/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1762
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1814
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1814
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1814
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
تمہید باب
اس عنوان میں تینوں میں سے اختیار والی بات امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہوں نے اختیار کا مسئلہ لفظ "أو" سے اخذ کیا ہے۔ ویسے حدیث میں بھی اس کی صراحت ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔
یعنی اسے اختیار ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو تین دن روزہ رکھے
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’شاید تمھاری جوئیں تمھیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول اللہ ﷺ !نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوا دو، پھر تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت محرم اپنا سر منڈوا سکتا ہے، پھر اس پر کفارہ واجب ہے جس کی تفصیل آیت کریمہ اور حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ (2) امام بخاری ى نے دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ فدیہ دینے میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ ؓ کو اختیار دیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ، حضرت عطاء اور حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ "أو" استعمال ہوا ہے وہ ’’اختیار‘‘ کے لیے ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی تائید میں ایک روایت بھی درج کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ ؓ کو فرمایا: ’’اگر چاہو تو بکری ذبح کرو، اگر چاہو تو تین دن کے روزے رکھ لو اور اگر چاہو تو مساکین کو کھانا کھلا دو۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1857) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، حضرت کعب بن عجرہ ؓ کہتے ہیں: مقام حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میرے سر سے جوئیں گر رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جوئیں تیرے لیے تکلیف کا باعث ہیں؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوا دو۔‘‘ چنانچہ مذکورہ آیت مبارکہ میرے متعلق نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: ’’تین دن کے روزے رکھو یا چھ مسکینوں میں ایک فرق غلہ تقسیم کرو یا جو قربانی میسر ہو اسے ذبح کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث:1815) دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ؓ نے اپنا سر منڈوا دیا تھا اور کفارے کے طور پر تین دن کے روزے رکھے تھے۔ اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے چھ مساکین کو کھانا کھلانے کا انتخاب کیا تھا لیکن اس کی سند صحیح نہیں۔ (فتح الباري:21/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید بن قیس نے، انہیں مجاہد نے، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور انہیں کعب بن عجرہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا، غالباً جوؤں سے تم کو تکلیف ہے، انہوں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنا سر منڈالے اور تین دن کے روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Abu Layla: Ka'b bin 'Ujra said that Allah's Apostle (ﷺ) said to him (Ka'b), "Perhaps your lice have troubled you?" Ka'b replied, "Yes! O Allah's Apostle." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Have your head shaved and then either fast three days or feed six poor persons or slaughter one sheep as a sacrifice."