کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب : اللہ تعالیٰ کا قول ” یا صدقہ “ (دیا جائے ) یہ صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: The saying of Allah Ta'ala "... Or giving Sadaqa ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1815.
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے قریب کھڑے ہوئے تو میرے سر سے جوئیں گررہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جو ئیں تمھارے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں !آپ نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوادو۔‘‘ حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ میرے ہی حق میں نازل ہوئی : ’’پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہو جائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو۔۔۔ ‘‘ آخر تک۔ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ’’تین دن روزے رکھ یا ایک فرق (تین صاع) اناج چھ مساکین کو صدقہ کریا جو قربانی تجھے میسر ہو اسے ذبح کر۔‘‘
تشریح:
(1) قرآن کریم میں مطلق روزوں اور مطلق صدقے کا ذکر تھا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے منصب کے پیش نظر اس کی تفسیر فرمائی کہ روزے تین دن اور صدقہ چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، نیز آیت کریمہ میں کسی ایک چیز کو بجا لانے کا اختیار اس شخص کو ہے جسے قربانی بھی میسر ہو، بصورت دیگر صرف روزوں اور صدقے میں اختیار ہو گا۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ تین صاع کھجور چھ مساکین کو کھلاؤ۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2882(1201)) (2) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرق میں تین صاع ہوتے ہیں اور فرق مدینہ طیبہ کا مشہور پیمانہ ہے جس میں سولہ رطل ہوتے ہیں۔ جب ایک فرق میں تین صاع ہوتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں صراحت ہے (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2882(1201)) تو اس کا تقاضا ہے کہ اس صاع میں 5 1/3 یعنی 5.33 رطل ہوں، اس صورت میں ایک فرق میں سولہ رطل ہو سکتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ایک صاع میں آٹھ رطل نہیں ہوتے جیسا کہ اہل کوفہ کی رائے ہے۔ (فتح الباري:21/4 ،22)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1763
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1815
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1815
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1815
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے قریب کھڑے ہوئے تو میرے سر سے جوئیں گررہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جو ئیں تمھارے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں !آپ نے فرمایا: ’’اپنا سر منڈوادو۔‘‘ حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ میرے ہی حق میں نازل ہوئی : ’’پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہو جائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو۔۔۔ ‘‘ آخر تک۔ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ’’تین دن روزے رکھ یا ایک فرق (تین صاع) اناج چھ مساکین کو صدقہ کریا جو قربانی تجھے میسر ہو اسے ذبح کر۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) قرآن کریم میں مطلق روزوں اور مطلق صدقے کا ذکر تھا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے منصب کے پیش نظر اس کی تفسیر فرمائی کہ روزے تین دن اور صدقہ چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، نیز آیت کریمہ میں کسی ایک چیز کو بجا لانے کا اختیار اس شخص کو ہے جسے قربانی بھی میسر ہو، بصورت دیگر صرف روزوں اور صدقے میں اختیار ہو گا۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ تین صاع کھجور چھ مساکین کو کھلاؤ۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2882(1201)) (2) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرق میں تین صاع ہوتے ہیں اور فرق مدینہ طیبہ کا مشہور پیمانہ ہے جس میں سولہ رطل ہوتے ہیں۔ جب ایک فرق میں تین صاع ہوتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں صراحت ہے (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2882(1201)) تو اس کا تقاضا ہے کہ اس صاع میں 5 1/3 یعنی 5.33 رطل ہوں، اس صورت میں ایک فرق میں سولہ رطل ہو سکتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ایک صاع میں آٹھ رطل نہیں ہوتے جیسا کہ اہل کوفہ کی رائے ہے۔ (فتح الباري:21/4 ،22)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مجاہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا، ان سے کعب بن عجرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ حدیبیہ میں میرے پاس آکر کھڑے ہوئے تو جوئیں میرے سر سے برابر گر رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ جوئیں تو تمہارے لیے تکلیف دینے والی ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا پھر سر منڈالے یا آپ ﷺ نے صرف یہ لفظ فرمایا کہ منڈالے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ”اگر تم میں کوئی مریض ہو یا اس کے سر میں میں کوئی تکلیف ہو“ آخر آیت تک، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین دن کے روزے رکھ لے یا ایک فرق غلہ سے چھ مسکینوں کو کھانا دے یا جو میسر ہو اس کی قربانی کردے۔
حدیث حاشیہ:
ایک فرق غلہ کا وزن تین صاع یا سولہ رطل ہوتا ہے، اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو ایک صاع کا وزن آٹھ رطل بتلاتے ہیں۔ قربانی جو آسان ہو یعنی بکرا ہو اور کوئی جانور جو بھی آسانی سے مل سکے قربان کردو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ka'b bin 'Umra: Allah's Apostle (ﷺ) stood beside me at Al-Hudaibiya and the lice were falling from my head in great number. He asked me, "Have your lice troubled you?" I replied in the affirmative. He ordered me to get my head shaved. Ka'b added, "This Holy Verse:--'And if any of you is ill, or has ailment in his scalp (2.196), etc. was revealed regarding me. "The Prophet (ﷺ) then ordered me either to fast three days, or to feed six poor persons with one Faraq (three Sas) (of dates), or to slaughter a sheep, etc (sacrifice) whatever was available