باب : اگر بے احرام والا شکار کرے اور احرام والے کو تحفہ بھیجے تو وہ کھا سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: If a non-Muhrim hunts and gives to a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس اور ابن عباس ؓ (محرم کے لیے ) شکار کے سوا دوسرے جانور مثلاً اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑے کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن میں لفظ عدل (بفتح غین ) مثل کے معنی میں بولا گیا ہے اور عدل (عین کو ) جب زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو وزن کے معنی میں ہوگا، قیاماً قواماً (کے معنی میں ہے، قیم ) یعدلون کے معنی میں مثل بنانے کے۔
1821.
حضرت عبد اللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میرے والد محترم (ابو قتادہ ؓ )حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا لیکن انھوں نے نہیں باندھا تھا۔ نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ سے جنگ کرنا چاہتا ہے لیکن نبی ﷺ نے اپنے سفر کو جاری رکھا۔ میرے والد اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ اچانک وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ (میرے والد نے بیان کیا کہ میں متوجہ ہوا) تو میں نے دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں نے اس پر حملہ کردیا اور اسے زخمی کر کے ٹھہرنے پر مجبورکردیا۔ میں نے اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تعاون چاہا لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ بہر حال ہم نے اس کا کچھ گوشت کھایا۔ اسی اثنا میں ہمیں خطرہ لاحق ہواکہ مبادا ہم(رسول اللہ ﷺ سے)پیچھے رہ جائیں، چنانچہ میں نے نبی ﷺ کو تلاش کرنا شروع کیا۔ میں اپنے گھوڑے کو کبھی دوڑاتا اور کبھی آہستہ چلاتا رہا۔ میں آدھی رات کے قریب قبیلہ غفار کے ایک شخص سے ملا، میں نے اس سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ کو تونے کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو مقام تعہن میں چھوڑا ہے، آپ سقیا مقام پر قیلولہ کرنا چاہتے تھے میں نے(آپ کے پاس پہنچ کر)عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کو سلام کہتے ہیں اور آپ کے لیے رحمت الٰہی کی دعا کرتے ہیں!انھیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ آپ سے پیچھے نہ رہ جائیں لہذا آپ ان کا انتظار فرمائیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے ایک گاؤ خر کا شکار کیا ہے اور میرے پاس کچھ بچاہوا گوشت موجود ہے۔ آپ نے قوم سے فرمایا: ’’اسے کھاؤ۔ ‘‘ حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم انسان شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ اس نے شکار کرنے میں کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق کوئی خبر ہی دی ہو حتی کہ غیر محرم اسے خود ہی دیکھے اور شکار کرے، محرم کے اشارے یا رہنمائی کرنے سے اسے معلوم نہ ہوا ہو۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شکار کا گوشت پیش کیا گیا لیکن آپ نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ اس کا محمل یہ ہے کہ وہ شکار آپ کے لیے کیا گیا تھا۔ واللہ أعلم۔ (2) اصل واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ راستے میں آپ ﷺ کو اطلاع ملی کہ وادئ غیقہ میں کچھ دشمن ہیں جو مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے حضرت ابو قتادہ ؓ سمیت کئی لوگوں کو ساحل سمندر کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تاکہ دشمن بے خبری سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جب خطرہ ٹل گیا تو باقی ساتھیوں نے احرام باندھ لیا لیکن حضرت ابو قتادہ نے احرام نہ باندھا اور جب انہوں نے احرام نہ باندھا تو ان کے لیے شکار کرنا جائز ہوا۔ (فتح الباري:31/4) (3) تعهن ایک چشمے کا نام ہے جو سقیا نامی بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اور سقیا مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بڑی بستی کا نام ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1769
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1821
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1821
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1821
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عکرمہ کو اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ وہ احرام کی حالت میں تھے۔ (المصنف لعبدالرزاق:4/389) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے موصول بیان کیا ہے۔ صباح بن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آیا محرم کسی جانور کو ذبح کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ،باب فی المحرم یذبح:4/400،طبع دارالفکر) واضح رہے کہ محرم آدمی صرف ان جانوروں کو ذبح کر سکتا ہے جن کا شکار نہیں کیا جاتا۔ چونکہ آیت کریمہ میں لفظ عدل آیا تھا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی لغوی تفسیر بیان کی ہے، پھر اسی مناسبت سے يعدلون کے معنی بتائے ہیں جو سورۂ انعام میں ہے۔ اسی طرح قياما کی تفسیر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے قیام امن کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے تین مفہوم ہیں: ٭ بیت اللہ کا وجود مسعود تمام جہانوں کے لیے قیام و بقا کا ذریعہ ہے، یعنی دنیا کا وجود اس وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والے موجود ہیں۔ ٭ بیت اللہ کا وجود صرف عرب کے لیے امن و آتشی کا ذریعہ ہے، یعنی کعبہ شریف پورے ملک عرب کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔ ٭ مکہ کی بے آب و گیاہ وادی اور اس کے باشندگان کے لیے معاش کا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر کے دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں کی بدولت اہل مکہ کو اتنی آمدنی ہو جاتی ہے کہ وہ سال بھر آسانی سے کھاتے رہتے ہیں۔
اور انس اور ابن عباس ؓ (محرم کے لیے ) شکار کے سوا دوسرے جانور مثلاً اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑے کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن میں لفظ عدل (بفتح غین ) مثل کے معنی میں بولا گیا ہے اور عدل (عین کو ) جب زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو وزن کے معنی میں ہوگا، قیاماً قواماً (کے معنی میں ہے، قیم ) یعدلون کے معنی میں مثل بنانے کے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میرے والد محترم (ابو قتادہ ؓ )حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا لیکن انھوں نے نہیں باندھا تھا۔ نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ سے جنگ کرنا چاہتا ہے لیکن نبی ﷺ نے اپنے سفر کو جاری رکھا۔ میرے والد اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ اچانک وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ (میرے والد نے بیان کیا کہ میں متوجہ ہوا) تو میں نے دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں نے اس پر حملہ کردیا اور اسے زخمی کر کے ٹھہرنے پر مجبورکردیا۔ میں نے اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تعاون چاہا لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ بہر حال ہم نے اس کا کچھ گوشت کھایا۔ اسی اثنا میں ہمیں خطرہ لاحق ہواکہ مبادا ہم(رسول اللہ ﷺ سے)پیچھے رہ جائیں، چنانچہ میں نے نبی ﷺ کو تلاش کرنا شروع کیا۔ میں اپنے گھوڑے کو کبھی دوڑاتا اور کبھی آہستہ چلاتا رہا۔ میں آدھی رات کے قریب قبیلہ غفار کے ایک شخص سے ملا، میں نے اس سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ کو تونے کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو مقام تعہن میں چھوڑا ہے، آپ سقیا مقام پر قیلولہ کرنا چاہتے تھے میں نے(آپ کے پاس پہنچ کر)عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کو سلام کہتے ہیں اور آپ کے لیے رحمت الٰہی کی دعا کرتے ہیں!انھیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ آپ سے پیچھے نہ رہ جائیں لہذا آپ ان کا انتظار فرمائیں۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے ایک گاؤ خر کا شکار کیا ہے اور میرے پاس کچھ بچاہوا گوشت موجود ہے۔ آپ نے قوم سے فرمایا: ’’اسے کھاؤ۔ ‘‘ حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم انسان شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ اس نے شکار کرنے میں کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق کوئی خبر ہی دی ہو حتی کہ غیر محرم اسے خود ہی دیکھے اور شکار کرے، محرم کے اشارے یا رہنمائی کرنے سے اسے معلوم نہ ہوا ہو۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شکار کا گوشت پیش کیا گیا لیکن آپ نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ اس کا محمل یہ ہے کہ وہ شکار آپ کے لیے کیا گیا تھا۔ واللہ أعلم۔ (2) اصل واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔ راستے میں آپ ﷺ کو اطلاع ملی کہ وادئ غیقہ میں کچھ دشمن ہیں جو مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے حضرت ابو قتادہ ؓ سمیت کئی لوگوں کو ساحل سمندر کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تاکہ دشمن بے خبری سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جب خطرہ ٹل گیا تو باقی ساتھیوں نے احرام باندھ لیا لیکن حضرت ابو قتادہ نے احرام نہ باندھا اور جب انہوں نے احرام نہ باندھا تو ان کے لیے شکار کرنا جائز ہوا۔ (فتح الباري:31/4) (3) تعهن ایک چشمے کا نام ہے جو سقیا نامی بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اور سقیا مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بڑی بستی کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت انس ؓ کے نزدیک محرم کے لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ شکار نہ ہو، جیسے اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑا وغیرہ۔
عدل سے مراد مثل ہے۔ اور جب اسے عین کے کسرہ سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ہیں۔ "ہم وزن "اور قِيَمًا کے معنی قَوَامًا ہیں یعنی دنیا کے قائم رہنے کا دارومداربیت اللہ کے باقی رہنے پر ہے يَعْدِلُونَ کے معنی ہیں۔ "برابری کرتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ ابن کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے موقع پر (دشمنوں کا پتہ لگانے ) نکلے۔ پھر ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھا لیا لیکن (خود انہوں نے ابھی ) نہیں باندھا تھا (اصل میں ) نبی کریم ﷺ کو کسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ کی تاک میں ہے، اس لیے نبی کریم ﷺ نے (ابوقتادہ اور چند صحابہ ؓ کو ان کی تلاش میں ) روانہ کیا میرے والد (ابوقتادہ ؓ ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے (میرے والد نے بیان کیا کہ ) میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں اس پر جھپٹا اور نیزے سے اسے ٹھنڈا کردیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد چاہی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا، پھر ہم نے گوشت کھایا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں (رسول اللہ ﷺ سے ) دور نہ ہو جائیں، چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کردیا کبھی اپنے گھوڑے تیز کردیتا اور کبھی آہستہ، آخر رات گئے بنو غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب میں آپ سے جدا ہوا تو آپ مقام تعہن میں تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں پہنچ کر دوپہر کا آرام کریں گے۔ غرض میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ کے اصحاب آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتے ہیں۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس لیے آپ ٹھہر کر ان کا انتظار کریں، پھر میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور اس کا کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی میرے پاس موجود ہے، آپ ﷺ نے لوگوں سے کھانے کے لیے فرمایا حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abu Qatada (RA): My father set out (for Makkah) in the year of Al-Hudaibiya, and his companions assumed Ihram, but he did not. At that time the Prophet (ﷺ) was informed that an enemy wanted to attack him, so the Prophet (ﷺ) proceeded onwards. While my father was among his companions, some of them laughed among themselves. (My father said), "I looked up and saw an onager. I attacked, stabbed and caught it. I then sought my companions' help but they refused to help me. (Later) we all ate its meat. We were afraid that we might be left behind (separated) from the Prophet (ﷺ) so I went in search of the Prophet (ﷺ) and made my horse to run at a galloping speed at times and let it go slow at an ordinary speed at other times till I met a man from the tribe of Bani Ghifar at midnight. I asked him, "Where did you leave the Prophet (ﷺ) ?" He replied, "I left him at Ta'hun and he had the intention of having the midday rest at As-Suqya. I followed the trace and joined the Prophet (ﷺ) and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Your people (companions) send you their compliments, and (ask for) Allah's Blessings upon you. They are afraid lest they may be left behind; so please wait for them.' I added, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! I hunted an onager and some of its meat is with me. The Prophet (ﷺ) told the people to eat it though all of them were in the state of Ihram."