باب : احرام والے لوگ شکار دیکھ کر ہنس دیں اور بے احرام والا سمجھ جائے پھر شکار کرے تو وہ احرام والے بھی کھا سکتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: If the Muhrimun saw game and laughed and a non-Muhrim understood, they are allowed to eat the game)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1822.
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حدیبیہ کے سال نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ آپ کے تمام اصحاب نے احرام باندھ لیا مگر میں نے احرام نہ باندھا۔ پھر ہمیں خبر ملی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن موجود ہے، لہٰذا ہم ان کی طرف چل دیے۔ میرے ساتھیوں نےایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ ایک دوسرےکو دیکھ کر ہنسے۔ میں نے نظر اٹھائی تو اسے دیکھا، اس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا اور اسے زخمی کر کے گرالیا۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بالآخر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ سے جا ملا۔ ہمیں خوف تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پیچھےرہ جائیں گے اس لیے میں کبھی اپنے گھوڑےکو تیزچلاتا اور کبھی آہستہ چلاتا، بالآخرمیں آدھی رات کو بنو غفارکے ایک شخص سے ملا تو اس سے دریافت کیا کہ تونے رسول اللہ ﷺ کو کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ کو تعہن چشمےپر چھوڑاتھا اور آپ مقام سقیا میں قیلولہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے بالآخر میں رسول اللہ ﷺ سے جاملا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ !مجھے آپ کے ساتھیوں نے روانہ کیا ہے اور وہ آپ کو سلام عرض کرتےہیں اور آپ کے لیے رحمت الٰہی کی دعا مانگتے ہیں۔ انھیں یہ اندیشہ ہے کہ مبادا دشمن ہمیں آپ سے جدا کردے، لہٰذا آپ ان کا انتظار فرمائیں، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور ہمارے پاس اس کے گوشت سے بچا ہوا ایک ٹکڑا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نےاپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ ’’ کھاؤ ‘‘ حالانکہ وہ سب محرم تھے۔
تشریح:
(1) محرم کے خود شکار کرنے پر پابندی ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون بھی نہیں کر سکتا حتی کہ وہ اس کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کر سکتا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تو آپ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کسی نے اس کی طرف اشارہ تو نہیں کیا تھا؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’شکار کا بقیہ گوشت کھا لو‘‘(صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث:1824) (2) اس حدیث میں ہے کہ صحابۂ كرام ؓ جنگلی گدھا دیکھ کر ہنس پڑے۔ یہ ہنسنا اشارے کے لیے نہیں بلکہ اظہار تعجب کے طور پر تھا کہ ہم قدرت رکھنے کے باوجود احرام کی وجہ سے اسے شکار نہیں کر سکتے۔ (3) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شکار دیکھ کر اس طرح ہنس پڑنا اس کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے، اس لیے اگر شکار کے سلسلے میں محرم آدمی نے کسی غیر محرم سے کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو تو شکار کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شکار محرم کے لیے نہ کیا گیا ہو۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1770
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1822
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1822
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1822
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حدیبیہ کے سال نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ آپ کے تمام اصحاب نے احرام باندھ لیا مگر میں نے احرام نہ باندھا۔ پھر ہمیں خبر ملی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن موجود ہے، لہٰذا ہم ان کی طرف چل دیے۔ میرے ساتھیوں نےایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ ایک دوسرےکو دیکھ کر ہنسے۔ میں نے نظر اٹھائی تو اسے دیکھا، اس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا اور اسے زخمی کر کے گرالیا۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بالآخر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ سے جا ملا۔ ہمیں خوف تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پیچھےرہ جائیں گے اس لیے میں کبھی اپنے گھوڑےکو تیزچلاتا اور کبھی آہستہ چلاتا، بالآخرمیں آدھی رات کو بنو غفارکے ایک شخص سے ملا تو اس سے دریافت کیا کہ تونے رسول اللہ ﷺ کو کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ کو تعہن چشمےپر چھوڑاتھا اور آپ مقام سقیا میں قیلولہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے بالآخر میں رسول اللہ ﷺ سے جاملا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ !مجھے آپ کے ساتھیوں نے روانہ کیا ہے اور وہ آپ کو سلام عرض کرتےہیں اور آپ کے لیے رحمت الٰہی کی دعا مانگتے ہیں۔ انھیں یہ اندیشہ ہے کہ مبادا دشمن ہمیں آپ سے جدا کردے، لہٰذا آپ ان کا انتظار فرمائیں، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور ہمارے پاس اس کے گوشت سے بچا ہوا ایک ٹکڑا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نےاپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ ’’ کھاؤ ‘‘ حالانکہ وہ سب محرم تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) محرم کے خود شکار کرنے پر پابندی ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون بھی نہیں کر سکتا حتی کہ وہ اس کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کر سکتا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تو آپ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کسی نے اس کی طرف اشارہ تو نہیں کیا تھا؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’شکار کا بقیہ گوشت کھا لو‘‘(صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث:1824) (2) اس حدیث میں ہے کہ صحابۂ كرام ؓ جنگلی گدھا دیکھ کر ہنس پڑے۔ یہ ہنسنا اشارے کے لیے نہیں بلکہ اظہار تعجب کے طور پر تھا کہ ہم قدرت رکھنے کے باوجود احرام کی وجہ سے اسے شکار نہیں کر سکتے۔ (3) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شکار دیکھ کر اس طرح ہنس پڑنا اس کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے، اس لیے اگر شکار کے سلسلے میں محرم آدمی نے کسی غیر محرم سے کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو تو شکار کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شکار محرم کے لیے نہ کیا گیا ہو۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ چلے ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھ لیا تھا لیکن ان کا بیان تھا کہ میں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ ہمیں غیقہ میں دشمن کے موجود ہونے کی اطلاع ملی اس لیے ہم ان کی تلاش میں (نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق نکلے پھر میرے ساتھیوں نے گو رخر دیکھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے میں نے جو نظر اٹھائی تو اسے دیکھ لیا گھوڑے پر (سوار ہو کر ) اس پر جھپٹا اور اسے زخمی کرکے ٹھنڈا کر دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کچھ امداد چاہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ہم سب نے اسے کھایا اور اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا (پہلے ) ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم آنحضور ﷺ سے دور نہ رہ جائیں اس لیے میں کبھی اپنا گھوڑا تیز کردیتا اور کبھی آہستہ آخر میری ملاقات ایک بنی غفار کے آدمی سے آدھی رات میں ہوئی میں نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں آپ ﷺ سے تعہن نامی جگہ میں الگ ہوا تھا اور آپ ﷺ کا ارادہ یہ تھا کہ دوپہر کو مقام سقیا میں آرام کریں گے پھر جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ کے اصحاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں دشمن آپ کے اور ان کے درمیان حائل نہ ہو جائے اس لیے آپ ان کا انتظار کیجئے چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا، میں نے یہ بھی عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میں نے ایک گورخر کا شکار کیا اور کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی موجود ہے اس پر آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کے کھاؤ حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abu Qatada (RA): That his father said "We proceeded with the Prophet (ﷺ) in the year of Al-Hudaibiya and his companions assumed Ihram but I did not. We were informed that some enemies were at Ghaiqa and so we went on towards them. My companions saw an onager and some of them started laughing among themselves. I looked and saw it. I chased it with my horse and stabbed and caught it. I wanted some help from my companions but they refused. (I slaughtered it all alone). We all ate from it (i.e. its meat). Then I followed Allah's Apostle (ﷺ) lest we should be left behind. At times I urged my horse to run at a galloping speed and at other times at an ordinary slow speed. On the way I met a man from the tribe of Bani Ghifar at midnight. I asked him where he had left Allah's Apostle (ﷺ) . The man replied that he had left the Prophet (ﷺ) at a place called Ta'hun and he had the intention of having the midday rest at As-Suqya. So, I followed Allah's Apostle (ﷺ) till I reached him and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have been sent by my companions who send you their greetings and compliments and ask for Allah's Mercy and Blessings upon you. They were afraid lest the enemy might intervene between you and them; so please wait for them." So he did. Then I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We have hunted an onager and have some of it (i.e. its meat) left over." Allah's Apostle (ﷺ) told his companions to eat the meat although all of them were in a state of Ihram."