باب : غیر محرم کے شکار کرنے کے لیے احرام والا شکار کی طرف اشارہ بھی نہ کرے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: A Muhrim should not point at a game)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1824.
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے روانہ ہوئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ہمراہ نکلے۔ آپ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسرے راستے سے بھیج دیا۔ ان میں ابو قتادہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’ تم سمندر کا کنارہ اختیار کرو حتی کہ ہم آملیں۔‘‘ وہ دریا کے کنارے چلتے رہے۔ جب وہ لوٹے تو ان سب نے احرام باندھ رکھا تھا لیکن حضرت ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا، اس دوران میں کہ وہ چل رہے تھے انھوں نے کئی ایک گاؤخر دیکھے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے اچانک ان پر حملہ کیا تو مادہ گاؤخر کو شکار کر لیا۔ ان کے ساتھی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا پھر کہنے لگے: ہم تو محرم ہیں، کیا ہم اس طرح شکار کا گوشت کھاسکتے ہیں؟پھر ہم نے اس مادہ گاؤخر کے کے گوشت سے کچھ بچاہوا ٹکڑا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! ہم نے احرام باندھا ہوا تھا جبکہ ابو قتادہ ؓ احرام کے بغیر تھے۔ ہم نے کئی ایک گاؤخردیکھے تو ابو قتادہ ؓ نے ان پر حملہ کر کے ایک مادہ گاؤخر کا شکار کرلیا۔ ہم اپنی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا۔ پھر ہم نے خیال کیا کہ محرم ہو کر شکار کا گوشت کھارہے ہیں؟ ہم اس میں سے کچھ بچاہوا گوشت اپنے ساتھ اٹھالائے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم میں سے کسی نے اس کو گاؤخر پرحملہ کرنے کا کہاتھایا اس کی طرف اشارہ کیا تھا ؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا جو بچا ہوا گوشت ہے وہ بھی کھالو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کا آغاز بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے عازم سفر ہوئے، یہ کسی راوی کو وہم ہوا ہے کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جم غفیر تھا اور ان میں سے کوئی ساحل سمندر کے راستے سے نہیں گیا بلکہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آنے کے لیے جو شاہراہ عام تھی اسی پر چلتے رہے۔ یہ عمرۂ حدیبیہ کا واقعہ ہے جیسا کہ خود حضرت ابو قتادہ ؓ سے اس کی وضاحت مروی ہے۔ اگر حج کو لغوی معنی میں لیا جائے تو صحیح ہے کیونکہ اس کے معنی قصد کرنے کے ہیں، عمرے میں بھی بیت اللہ کا قصد ہوتا ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر محرم کو شکار کی نشاندہی کرے یا اس کی طرف اشارہ کرے۔ اگر کسی نے شکار کی طرف اشارہ کر دیا اور غیر محرم نے اسے شکار کر لیا تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں لیکن محرم پر اس سلسلے میں کوئی تاوان نہیں ہو گا جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی ؒ کا موقف ہے۔ (فتح الباري:39/4)واللہ أعلم (3) محرم کے لیے شکار کرنا جائز نہیں۔ ہاں، اگر شکاری جانور محرم پر حملہ کر دے اور وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے اسے مار دے تو اس صورت میں بھی اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔ (فتح الباري:41/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1772
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1824
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1824
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1824
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے روانہ ہوئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ہمراہ نکلے۔ آپ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسرے راستے سے بھیج دیا۔ ان میں ابو قتادہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’ تم سمندر کا کنارہ اختیار کرو حتی کہ ہم آملیں۔‘‘ وہ دریا کے کنارے چلتے رہے۔ جب وہ لوٹے تو ان سب نے احرام باندھ رکھا تھا لیکن حضرت ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا، اس دوران میں کہ وہ چل رہے تھے انھوں نے کئی ایک گاؤخر دیکھے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے اچانک ان پر حملہ کیا تو مادہ گاؤخر کو شکار کر لیا۔ ان کے ساتھی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا پھر کہنے لگے: ہم تو محرم ہیں، کیا ہم اس طرح شکار کا گوشت کھاسکتے ہیں؟پھر ہم نے اس مادہ گاؤخر کے کے گوشت سے کچھ بچاہوا ٹکڑا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! ہم نے احرام باندھا ہوا تھا جبکہ ابو قتادہ ؓ احرام کے بغیر تھے۔ ہم نے کئی ایک گاؤخردیکھے تو ابو قتادہ ؓ نے ان پر حملہ کر کے ایک مادہ گاؤخر کا شکار کرلیا۔ ہم اپنی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا۔ پھر ہم نے خیال کیا کہ محرم ہو کر شکار کا گوشت کھارہے ہیں؟ ہم اس میں سے کچھ بچاہوا گوشت اپنے ساتھ اٹھالائے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم میں سے کسی نے اس کو گاؤخر پرحملہ کرنے کا کہاتھایا اس کی طرف اشارہ کیا تھا ؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا جو بچا ہوا گوشت ہے وہ بھی کھالو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا آغاز بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے عازم سفر ہوئے، یہ کسی راوی کو وہم ہوا ہے کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جم غفیر تھا اور ان میں سے کوئی ساحل سمندر کے راستے سے نہیں گیا بلکہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آنے کے لیے جو شاہراہ عام تھی اسی پر چلتے رہے۔ یہ عمرۂ حدیبیہ کا واقعہ ہے جیسا کہ خود حضرت ابو قتادہ ؓ سے اس کی وضاحت مروی ہے۔ اگر حج کو لغوی معنی میں لیا جائے تو صحیح ہے کیونکہ اس کے معنی قصد کرنے کے ہیں، عمرے میں بھی بیت اللہ کا قصد ہوتا ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر محرم کو شکار کی نشاندہی کرے یا اس کی طرف اشارہ کرے۔ اگر کسی نے شکار کی طرف اشارہ کر دیا اور غیر محرم نے اسے شکار کر لیا تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں لیکن محرم پر اس سلسلے میں کوئی تاوان نہیں ہو گا جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی ؒ کا موقف ہے۔ (فتح الباري:39/4)واللہ أعلم (3) محرم کے لیے شکار کرنا جائز نہیں۔ ہاں، اگر شکاری جانور محرم پر حملہ کر دے اور وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے اسے مار دے تو اس صورت میں بھی اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔ (فتح الباري:41/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن موہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی قتادہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد ابوقتادہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ (حج کا ) ارادہ کرکے نکلے۔ صحابہ ؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو جس میں ابوقتادہ ؓ بھی تھے یہ ہدایت دے کر راستے سے واپس بھیجا کہ تم لوگ دریا کے کنارے کنارے ہو کر جاؤ، (اور دشمن کا پتہ لگاؤ ) پھر ہم سے آملو۔ چنانچہ یہ جماعت دریا کے کنارے کنارے چلی، واپسی میں سب نے احرام باندھ لیا تھا لیکن ابوقتادہ ؓ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔ یہ قافلہ چل رہا تھا کہ کئی گورخر دکھائی دئیے، ابوقتادہ نے ان پر حملہ کیا اور ایک مادہ کا شکار کر لیا، پھر ایک جگہ ٹھہر کر سب نے اس کا گوشت کھایا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ کیا ہم محرم ہونے کے باوجود شکار کا گوشت بھی کھاسکتے ہیں؟ چنانچہ جو کچھ گوشت بچا وہ ہم ساتھ لائے اور جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو عرض کی یا رسول اللہ ! ہم سب لوگ تو محرم تھے لیکن ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے گورخر دیکھے اور ابوقتادہ ؓ نے ان پر حملہ کرکے ایک مادہ کا شکار کر لیا، اس کے بعد ایک جگہ ہم نے قیام کیا اور اس کا گوشت کھایا پھر خیال آیا کہ کیا ہم محرم ہونے کے باجود شکار کا گوشت کھا بھی سکتے ہیں؟ اس لیے جو کچھ گوشت باقی بچا ہے وہ ہم ساتھ لائے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ ؓ کو شکار کرنے کے لیے کہا تھا؟ یا کسی نے اس شکار کی طرف اشارہ کیا تھا؟ سب نے کہا نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر بچا ہوا گوشت بھی کھا لو۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حالت احرام والوں کے واسطے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ شکاری کو اشاروں سے اس شکار کے لیے رہ نمائی کرسکیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abu Qatada (RA): That his father had told him that Allah's Apostle (ﷺ) set out for Hajj and so did his companions. He sent a batch of his companions by another route and Abu Qatada was one of them. The Prophet (ﷺ) said to them, "Proceed along the sea-shore till we meet all together." So, they took the route of the sea-shore, and when they started all of them assumed Ihram except Abu Qatada. While they were proceeding on, his companions saw a group of onagers. Abu Qatada chased the onagers and attacked and wounded a she-onager. They got down and ate some of its meat and said to each other: "How do we eat the meat of the game while we are in a state of Ihram?" So, we (they) carried the rest of the she-onager's meat, and when they met Allah's Apostle (ﷺ) they asked, saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We assumed Ihram with the exception of Abu Qatada and we saw (a group) of onagers. Abu Qatada attacked them and wounded a she-onager from them. Then we got down and ate from its meat. Later, we said, (to each other), 'How do we eat the meat of the game and we are in a state of Ihram?' So, we carried the rest of its meat. The Prophet (ﷺ) asked, "Did anyone of you order Abu Qatada to attack it or point at it?" They replied in the negative. He said, "Then eat what is left of its meat."