باب : اگر کسی نے محرم کے لیے زندہ گورخر تحفہ بھیجا ہو تو اسے قبول نہ کرے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: If a person gave onager to a Muhrim then he should not accept it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1825.
حضرت صعب بن جثامہ لیثی ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے ایک جنگلی گدھا رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ پیش کیا۔ اس وقت آپ مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کردیا لیکن آپ نے جب اس کے چہرےپر افسردگی دیکھی تو فرمایا: ’’ہم نے یہ اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم محرم ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کی نشاندہی کی ہے کہ حضرت صعب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں زندہ گاؤخر پیش کیا تھا اور زندہ شکار کو کسی صورت میں محرم کے لیے مال بنانا جائز نہیں جبکہ روایات میں اس کے زندہ ہونے کی تصریح نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صعب ؓ نے گاؤخر کا گوشت بھیجا تھا۔ امام بیہقی ؒ کہتے ہیں: ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ حضرت صعب ؓ نے پہلے زندہ گاؤخر بھیجا ہو گا، جب رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا تو اس نے ذبح کر کے بھیج دیا۔ چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شکار کیا گیا تھا، اس لیے آپ نے واپس کر دیا اور وضاحت فرمائی کہ اگر ہم احرام کی حالت میں نہ ہوتے تو اسے ضرور قبول کر لیتے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معقول وجہ سے ہدیہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجہ بیان کر دی جائے تاکہ ہدیہ دینے والے کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ (فتح الباري:45/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1773
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1825
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1825
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1825
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت صعب بن جثامہ لیثی ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے ایک جنگلی گدھا رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ پیش کیا۔ اس وقت آپ مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کردیا لیکن آپ نے جب اس کے چہرےپر افسردگی دیکھی تو فرمایا: ’’ہم نے یہ اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم محرم ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کی نشاندہی کی ہے کہ حضرت صعب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں زندہ گاؤخر پیش کیا تھا اور زندہ شکار کو کسی صورت میں محرم کے لیے مال بنانا جائز نہیں جبکہ روایات میں اس کے زندہ ہونے کی تصریح نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صعب ؓ نے گاؤخر کا گوشت بھیجا تھا۔ امام بیہقی ؒ کہتے ہیں: ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ حضرت صعب ؓ نے پہلے زندہ گاؤخر بھیجا ہو گا، جب رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا تو اس نے ذبح کر کے بھیج دیا۔ چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شکار کیا گیا تھا، اس لیے آپ نے واپس کر دیا اور وضاحت فرمائی کہ اگر ہم احرام کی حالت میں نہ ہوتے تو اسے ضرور قبول کر لیتے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معقول وجہ سے ہدیہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجہ بیان کر دی جائے تاکہ ہدیہ دینے والے کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ (فتح الباري:45/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے، انہیں عبداللہ بن عباس ؓ نے اور انہیں صعب بن جثامہ لیثی ؓ نے کہ جب وہ ابواءیا ودان میں تھے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک گورخر کا تحفہ دیا تو آپ نے اسے واپس کردیا تھا، پھر جب آپ نے ان کے چہروں پر ناراضگی کا رنگ دیکھا تو آپ نے فرمایا واپسی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ابن خزیمہ اور ابوعوانہ کی روایت میں یوں ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا، مسلم کی روایت میں ران کا ذکر ہے یا پٹھے کا جن میں سے خون ٹپک رہا تھا۔ بیہقی کی روایت میں ہے کہ صعب نے جنگلی گدھے کا پٹھا بھیجا۔ آپ ﷺ نے جحفہ میں تھے۔ آپ ﷺ نے اس میں سے فوراً کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا۔ بیہقی نے کہا اگر روایت محفوظ ہو تو شاید پہلے صعب نے زندہ گورخر بھیجا ہوگا آپ نے اس کو واپس کر دیا پھر اس کا گوشت بھیجا تو آپ نے اسے لے لیا۔ ابواءایک پہاڑ کا نام ہے اور ودان ایک موضع ہے جحفہ کے قریب۔ حافظ نے کہا کہ ابواءسے جحفہ تک تئیس میل اور ودان سے حجفہ تک آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ باب کے ذریعہ امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس شکار کو واپس کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ زندہ تھا، حضرت امام نے دوسرے قرائن کی روشنی میں یہ تطبیق دی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): From As-Sa'b bin Jath-thama Al-Laithi that the latter presented an onager to Allah's Apostle (ﷺ) while he was at Al-Abwa' or at Waddan, and he refused it. On noticing the signs of some unpleasant feeling of disappointment on his (As-Sab's) face, the Prophet (ﷺ) said to him, "I have only returned it because I am Muhrim."