باب: بےوضو ہونے کی حالت میں تلاوت قرآن کرنا وغیرہ اور جو جائز ہیں ان کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The recitation of Quran or doing other invocations etc. after Hadath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
منصور نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ حمام ( غسل خانہ ) میں تلاوت قرآن میں کچھ حرج نہیں، اسی طرح بغیر وضو خط لکھنے میں ( بھی ) کچھ حرج نہیں اور حماد نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ اگر اس ( حمام والے آدمی کے بدن ) پر تہ بند ہو تو اس کو سلام کرو، اور اگر ( تہ بند ) نہ ہو تو سلام مت کرو۔
183.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ، جو ان کی خالہ ہیں، کے گھر ایک رات بسر کی۔ انھوں نے کہا: میں تو بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ دونوں بستر کے طول میں محو استراحت ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے تاآنکہ جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد، تو آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ہاتھ کے ذریعے سے چہرہ مبارک سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اچھی طرح وضو فرمایا، پھر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور وہی کچھ کیا جو آپ نے کیا تھا۔ پھر میں اٹھ کر آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا، چنانچہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑا۔ پھر آپ نے دو رکعات ادا کیں، پھر دو رکعات، پھر دو رکعات، پھر دو رکعات، پھر دو رکعات اور پھر دو رکعات پڑھیں۔ پھر وتر پڑھے اور لیٹ گئے تا آنکہ مؤذن آیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ہلکی سی دو رکعات ادا کیں، پھر باہر نکلے اور نماز فجر پڑھی۔
تشریح:
1۔ ابن بطال نے عنوان سے حدیث بالا کی مطابقت بایں الفاظ ظاہر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوکراٹھے اور وضو سے پہلے ہی سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بعد وضو کیے بغیرقرآنی آیات تلاوت کرنا صحیح ہے۔ (شرح ابن بطال: 279/1) لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نیند ناقض وضو نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں، لیکن میرا دل بیداررہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر غفلت طاری نہیں ہوتی اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس دوران میں ریاح وغیرہ کا بھی اخراج نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں پر نیند کے ساتھ غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے۔ اس لیے خروج ریح کا پتہ نہیں چلتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوران نیند غفلت طاری نہیں ہوتی، اس لیے ممکن ہے کہ آپ کو بحالت نیند حدث لاحق ہوا ہو، جسے آپ جانتے تھے، اس کے باوجود آپ نے وضو کے بغیر تلاوت فرمائی اور بعد میں وضو کیا، اس لیے بے وضو قراءت درست ہے اور ابن بطال کا موقف صحیح ہے۔ (فتح الباري: 377/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس توجیہ پر علامہ عینی نے اعتراض کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہےکہ حالت نوم میں آپ کو حدث لاحق نہیں ہوتا۔ پیغمبر اور غیر پیغمبرمیں یہی فرق ہے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی فرق نہیں کہ انھیں احساس ہوجاتا ہے، جبکہ ہمیں دوران نیند کسی چیز کا غفلت کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا۔ (عمدة القاري: 524/2) قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض میں کسی قدر وزن ہے۔ جبکہ وہ خود مطابقت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کی بنیاد مذکورہ حدیث کے ظاہر پر رکھی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کراٹھنے کے بعد وضو فرمایا، یعنی اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ناقض وضو پیش آیا ہوگا اورقرآنی آیات تلاوت کرنے کے بعد آپ نے وضو کیا۔ یہ ممکن ہے کہ نقض وضو بعد از تلاوت پیش آیا ہو، یا آپ نے حدث کے بغیر ہی وضو کی تجدید کی ہو۔ (عمدة القاري: 521/2) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ عنوان سے حدیث کی مطابقت حضرت ابن عباسؓ کے فعل سے ہے کہ آپ نے کہا: ’’میں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباسؓ کو وضو کے بغیر آیات کی تلاوت کرتے سنا اور آپ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ تلاوت درست نہ ہوتی توآپ ضرور تنبیہ فرمادیتے۔ (فتح الباري:377/1) بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اس وقت نابالغ تھے، لہٰذا ان کا فعل حجت نہیں۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت ابن عباسؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تو آپ نے دوران نماز ہی میں فوراً اصلاح فرمائی۔ اگرتلاوت درست نہ ہوتی تو اس کی بھی اصلاح کردینی چاہیے تھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوم طویل کے بعد اٹھے تھے اور عام طور پر اتنے طویل وقت میں کسی حدث کا پیش آنا بعید از امکان نہیں، اس لیے مذکورہ حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال صحیح ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدث کو مطلق بیان کیا تھا۔ اس حدث سے اسے مقید کیاجاسکتا ہے کہ اس سے مراد حدث اصغر ہے کیونکہ اگرحدث اکبر(جماع وغیرہ) لاحق ہوتا تو غسل کی ضرورت تھی جس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ (فتح الباري:377/1) 3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہؓ کے ساتھ لیٹے تھے، اس لیے ملامست کی وجہ سے نقض وضو ہوا تھا، لیکن یہ توجیہ اس لیے درست نہیں کہ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے ناقض وضو شمار نہیں کرتے، پھر وہ اس پر اپنے عنوان کی بنیاد کیونکر رکھ سکتے ہیں؟ البتہ ملاعبت کی صورت میں اکثر مذی کا خروج ہوجاتا ہے اور مذی ناقض وضو ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے تعرض نہیں فرمایا اور جوبات ذکر کی ہے اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اتفاق نہیں۔ واللہ أعلم وعلمه أتم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
184
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
183
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
183
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
183
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
فقہائے کرام نے اس عنوان کے متعلق مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔علمائے احناف نے تو کوشش فرمائی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو جمہور علماء سے الگ کردیا جائے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدث حقیقی ہو یا غیر حقیقی ،اس کے بعد تلاوت قرآن کا کیا حکم ہے؟یا حدث کے بعد تلاوت قرآن پاک یا اس کے علاوہ دیگر ادعیہ واذکارکے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حدث سے مراد حدث اصغر اور غیر سے مراد مظان الحدیث لیا ہے،یعنی حدث سے مراد بول وبراز کے راستے سے کسی چیز کا خارج ہوناہے جیسا کہ پہلے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوچکا ہے۔اورمظان الحدیث سے مراد نیند وغیرہ ہے جس میں وقوع حدث کا گمان ہوتا ہے۔انھوں نے کرمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ غیرہ کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے ،یعنی تلاوت قرآن اورذکر وسلام کا بے وضو ہونے کےبعد کیا حکم ہے؟ چونکہ حمامات محل انجاس واحداث ہوتے ہیں اور ان کا رخ کرنے والے لوگ بھی اکثر وبیشتر بے وضو ہوتے ہیں،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے متعلقہ آثار کو ذکر فرمایا ہے ،نیز خط وکتابت کے وقت بسم اللہ لکھی جاتی ہے اور دو ان کتابت میں آیات قرآن لکھنے کا بھی اس وقت رواج تھا ،لہذا وضو کے بغیر خط وغیرہ لکھنے کی بھی وضاحت کردی۔
منصور نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ حمام ( غسل خانہ ) میں تلاوت قرآن میں کچھ حرج نہیں، اسی طرح بغیر وضو خط لکھنے میں ( بھی ) کچھ حرج نہیں اور حماد نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ اگر اس ( حمام والے آدمی کے بدن ) پر تہ بند ہو تو اس کو سلام کرو، اور اگر ( تہ بند ) نہ ہو تو سلام مت کرو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ، جو ان کی خالہ ہیں، کے گھر ایک رات بسر کی۔ انھوں نے کہا: میں تو بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ دونوں بستر کے طول میں محو استراحت ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے تاآنکہ جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد، تو آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ہاتھ کے ذریعے سے چہرہ مبارک سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اچھی طرح وضو فرمایا، پھر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور وہی کچھ کیا جو آپ نے کیا تھا۔ پھر میں اٹھ کر آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا، چنانچہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑا۔ پھر آپ نے دو رکعات ادا کیں، پھر دو رکعات، پھر دو رکعات، پھر دو رکعات، پھر دو رکعات اور پھر دو رکعات پڑھیں۔ پھر وتر پڑھے اور لیٹ گئے تا آنکہ مؤذن آیا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ہلکی سی دو رکعات ادا کیں، پھر باہر نکلے اور نماز فجر پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن بطال نے عنوان سے حدیث بالا کی مطابقت بایں الفاظ ظاہر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوکراٹھے اور وضو سے پہلے ہی سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بعد وضو کیے بغیرقرآنی آیات تلاوت کرنا صحیح ہے۔ (شرح ابن بطال: 279/1) لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نیند ناقض وضو نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں، لیکن میرا دل بیداررہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر غفلت طاری نہیں ہوتی اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس دوران میں ریاح وغیرہ کا بھی اخراج نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں پر نیند کے ساتھ غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے۔ اس لیے خروج ریح کا پتہ نہیں چلتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوران نیند غفلت طاری نہیں ہوتی، اس لیے ممکن ہے کہ آپ کو بحالت نیند حدث لاحق ہوا ہو، جسے آپ جانتے تھے، اس کے باوجود آپ نے وضو کے بغیر تلاوت فرمائی اور بعد میں وضو کیا، اس لیے بے وضو قراءت درست ہے اور ابن بطال کا موقف صحیح ہے۔ (فتح الباري: 377/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس توجیہ پر علامہ عینی نے اعتراض کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہےکہ حالت نوم میں آپ کو حدث لاحق نہیں ہوتا۔ پیغمبر اور غیر پیغمبرمیں یہی فرق ہے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی فرق نہیں کہ انھیں احساس ہوجاتا ہے، جبکہ ہمیں دوران نیند کسی چیز کا غفلت کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا۔ (عمدة القاري: 524/2) قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض میں کسی قدر وزن ہے۔ جبکہ وہ خود مطابقت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کی بنیاد مذکورہ حدیث کے ظاہر پر رکھی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کراٹھنے کے بعد وضو فرمایا، یعنی اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ناقض وضو پیش آیا ہوگا اورقرآنی آیات تلاوت کرنے کے بعد آپ نے وضو کیا۔ یہ ممکن ہے کہ نقض وضو بعد از تلاوت پیش آیا ہو، یا آپ نے حدث کے بغیر ہی وضو کی تجدید کی ہو۔ (عمدة القاري: 521/2) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ عنوان سے حدیث کی مطابقت حضرت ابن عباسؓ کے فعل سے ہے کہ آپ نے کہا: ’’میں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباسؓ کو وضو کے بغیر آیات کی تلاوت کرتے سنا اور آپ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ تلاوت درست نہ ہوتی توآپ ضرور تنبیہ فرمادیتے۔ (فتح الباري:377/1) بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اس وقت نابالغ تھے، لہٰذا ان کا فعل حجت نہیں۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت ابن عباسؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تو آپ نے دوران نماز ہی میں فوراً اصلاح فرمائی۔ اگرتلاوت درست نہ ہوتی تو اس کی بھی اصلاح کردینی چاہیے تھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوم طویل کے بعد اٹھے تھے اور عام طور پر اتنے طویل وقت میں کسی حدث کا پیش آنا بعید از امکان نہیں، اس لیے مذکورہ حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال صحیح ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدث کو مطلق بیان کیا تھا۔ اس حدث سے اسے مقید کیاجاسکتا ہے کہ اس سے مراد حدث اصغر ہے کیونکہ اگرحدث اکبر(جماع وغیرہ) لاحق ہوتا تو غسل کی ضرورت تھی جس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ (فتح الباري:377/1) 3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہؓ کے ساتھ لیٹے تھے، اس لیے ملامست کی وجہ سے نقض وضو ہوا تھا، لیکن یہ توجیہ اس لیے درست نہیں کہ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے ناقض وضو شمار نہیں کرتے، پھر وہ اس پر اپنے عنوان کی بنیاد کیونکر رکھ سکتے ہیں؟ البتہ ملاعبت کی صورت میں اکثر مذی کا خروج ہوجاتا ہے اور مذی ناقض وضو ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے تعرض نہیں فرمایا اور جوبات ذکر کی ہے اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اتفاق نہیں۔ واللہ أعلم وعلمه أتم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت منصور، ابراہیم نخعی سے روایت کرتے ہیں کہ حمام میں قرآن پڑھنے اور بغیر وضو خط لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت حماد، جناب ابراہیم نخعی سے بیان کرتے ہیں کہ اگر حمام والے تہ بند باندھے ہوں تو انہیں سلام کرو، بصورت دیگر انہیں سلام نہ کہا جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے مخرمہ بن سلیمان کے واسطے سے نقل کیا، وہ کریب ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے انھیں خبر دی کہ انھوں نے ایک رات رسول کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں گزاری۔ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں تکیہ کے عرض (یعنی گوشہ) کی طرف لیٹ گیا اور رسول کریم ﷺ اور آپ کی اہلیہ نے (معمول کے مطابق) تکیہ کی لمبائی پر (سر رکھ کر) آرام فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ سوتے رہے اور جب آدھی رات ہو گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد آپ بیدار ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی نیند کو دور کرنے کے لیے آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر ایک مشکیزہ کے پاس جو ( چھت میں ) لٹکا ہوا تھا آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے وضو کیا، خوب اچھی طرح، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں میں نے بھی کھڑے ہو کر اسی طرح کیا، جس طرح آپ ﷺ نے وضو کیا تھا۔ پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھ کر اس کے بعد آپ نے وتر پڑھا اور لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آپ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے اٹھ کر دو رکعت معمولی ( طور پر ) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے اٹھنے کے بعد بغیر وضو آیات قرآنی پڑھیں، اس سے ثابت ہوا کہ بغیروضو تلاوت قرآن شریف جائز ہے۔ وضو کرکے تہجد کی بارہ رکعتیں پڑھیں اور وتر بھی ادا فرمائے، پھر لیٹ گئے، صبح کی اذان کے بعد جب مؤذن آپ کو جگانے کے لیے پہنچا تو آپ نے فجر کی سنتیں کم قراءت کے ساتھ پڑھیں، پھر فجر کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر (مسجد میں) تشریف لے گئے۔ سنت فجر کے بعد لیٹنا صاحب انوارالباری کے لفظوں میں: اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد میں وتر کے بعد لیٹنا مذکور ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنت فجر کے بعد بھی تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ اسی بنا پر اہل حدیث کے ہاں یہ اضطجاع معمول ہے۔ صاحب انوارالباری کے لفظوں میں اس کی بابت حنفیہ کا فتویٰ یہ ہے: ’’حنفیہ سنت فجر کے بعد لیٹنے کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ پر معمول کرتے ہیں۔ اور سنت مقصودہ آپ کے حق میں نہیں سمجھتے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آپ کی عادت مبارکہ کی اقتداء کے طریقہ پر ایسا کرے گا ماجور ہو گا، اسی لیے ہم اس کو بدعت نہیں کہہ سکتے اور جس نے ہماری طرف ایسی نسبت کی ہے وہ غلط ہے۔‘‘ (أنوارالباري:ج:5، ص: 137) اہل حدیث کے اس معمول کو برادران احناف عموماً بلکہ اکابر احناف تک بہ نظر تخفیف دیکھا کرتے ہیں۔ مقام شکرہے کہ محترم صاحب انوارالباری نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تسلیم کر لیا اور اس کی اقتدا کرنے والے کو ماجور قرار دیا اور بدعتی کہنے والوں کو خاطی قرار دیا۔ الحمد للہ اہل حدیث کے لیے باعث فخر ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات مبارکہ اپنائیں اور ان کو اپنے لیے معمول قرار دیں جب کہ ان کا قول ہے:
ما بلبلیم نالاں گلزار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم ما عاشقیم بیدل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): that he stayed overnight in the house of Maimuna the wife of the Prophet, his aunt. He added: I lay on the bed (cushion transversally) while Allah's Apostle (ﷺ) and his wife lay in the length-wise direction of the cushion. Allah's Apostle (ﷺ) slept till the middle of the night, either a bit before or a bit after it and then woke up, rubbing the traces of sleep off his face with his hands. He then, recited the last ten verses of Sura Al-Imran, got up and went to a hanging water-skin. He then performed the ablution from it and it was a perfect ablution, and then stood up to offer the prayer. I, too, got up and did as the Prophet (ﷺ) had done. Then I went and stood by his side. He placed his right hand on my head and caught my right ear and twisted it. He prayed two Rakat then two Rakat and two Rakat and then two Rakat and then two Rakat and then two Rakat (separately six times), and finally one Rak'a (the Witr). Then he lay down again in the bed till the Mu'adhdhin came to him where upon the Prophet (ﷺ) got up, offered a two light Rakat prayer and went out and led the Fajr prayer