Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To pass wet hands over the whole head during ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “ اپنے سروں کا مسح کرو۔ ” اور ابن مسیب نے کہا ہے کہ سر کا مسح کرنے میں عورت مرد کی طرح ہے۔ وہ ( بھی ) اپنے سر کا مسح کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا کچھ حصہ سر کا مسح کرنا کافی ہے؟ تو انھوں نے دلیل میں عبداللہ بن زید کی ( یہ ) حدیث پیش کی، یعنی پورے سر کا مسح کرنا چاہیے۔
185.
یحییٰ مازنی سے روایت ہے، ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے پوچھا، اور وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید ؓ نے کہا: ہاں۔ چنانچہ انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور ان کو دو مرتبہ دھویا۔ پھر تین مرتبہ کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ بعد ازاں اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا دونوں ہاتھوں سے مسح کیا، ہاتھوں کو آگے سے لے گئے اور پیچھے سے لائے۔ مسح سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور اس کے پچھلے حصے تک لے گئے۔ پھر جہاں سے شروع کیا تھا وہاں تک ہاتھوں کو لائے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح:
1۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح فرمایا۔ ( صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 636(274) ناصیہ سر کا وہ حصہ ہے جس کے بالوں کا رخ پیشانی کی طرف ہو۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض فقہاء نے چوتھائی سر کے مسح کو فرض قراردیا ہے، امام بخاری ؒ کا موقف ان کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں سر پر مسح کرنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی مقدار کے متعلق اجمال تھا جس کی وضاحت حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں مذکور ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت میں اگرچہ ناصیہ پر مسح کرنے کا ذکر ہے لیکن حدیث کے مطابق یہ اس صورت میں ہے جب سر پر پگڑی ہو۔ جتنا حصہ سر کا ننگا ہے اس پر مسح کر کے باقی پگڑی پر کر لیا جائے۔ اس طرح احادیث میں کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ جب پگڑی نہیں ہو گی تو تمام سر کا مسح کرنا ہو گا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے جو فقہاء آیت کریمہ میں ’’ب‘‘ کو زائد یا تبعیضیہ قرار دیتے ہیں ان کا موقف بھی درست نہیں، بلکہ یہ ’’ب‘‘ اِلصاق کے معنی میں مستعمل ہے۔ 2۔ حدیث میں (فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ) سے مقصود مسح کی کیفیت بیان کرنا ہے اور یہ دو حرکتیں ہیں جن سے مسح کی تکمیل ہوتی ہے، دوبارمسح کرنا نہیں کیونکہ اس روایت میں (اِقبال و اِدبار) کے ساتھ (مرة واحدة) کے الفاظ بھی مروی ہیں (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 186) اس سے معلوم ہوا کہ اقبال وادبار کے ساتھ بھی مسح کو ایک ہی بار سمجھا جاتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سامنے کے حصے سے مسح کرتے ہوئے گدی تک دونوں ہاتھ پہنچائے پھر ادھر سے مسح کرتے ہوئے سامنے تک آ جائے تاکہ پوری طرح سارے سر کا مسح ہو جائے۔ ویسے اقبال کے لغوی معنی اگلی طرف آنا اور ادبار کے پچھلی طرف جانا ہیں، لیکن یہ معنی روایت مذکور میں مقصود نہیں کیونکہ اس سے صورت برعکس ہو جاتی ہے جو غیر مقصود ہے۔ در حقیقت راوی نے یہاں ترتیب کی رعایت نہیں کی اور نہ واؤ عطف میں ترتیب ہی ہوتی ہے لیکن صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت میں (فَاَدبَرَ بِيَدِهِ وَاَقبَلَ) بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 199) وہ صحیح صورت واقعہ کا نقشہ پیش کرتی ہے اور لغوی معنی کے بھی مطابق ہے لیکن اگر (أَقْبَلَ) کے معنی کر لیے جائیں سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کیا (أَدْبَرَ) اور(پھر) پیچھے سے ہاتھ آگے لائے تو اس صورت میں ان کا مطلب بھی صحیح واضح ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم 3۔ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے وضو کے متعلق سوال کرنے والے عمرو بن ابی حسن ہیں، جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اگلے باب میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جو عمرو بن یحییٰ کے داداہیں جس کی صراحت خود روایت میں موجود ہے مؤطا امام مالک ؒ میں سائل کی تعیین کے متعلق مختلف روایات ہیں جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے پاس تین شخص تھے ایک ابو حسن انصاری دوسرے ان کے بیٹے عمرو بن ابی حسن اور تیسرے ان کے پوتے یحییٰ بن عمارہ بن ابی حسن یہ تینوں حضرات وضوئے نبوی معلوم کرنے کے لیے حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس کے متعلق سوال عمرو بن ابی حسن نے کیا، اب جہاں سوال کی نسبت عمرو بن ابی حسن کی طرف کی گئی ہے تو یہ حقیقت پر مبنی ہے لیکن جہاں ان کے والد ابو حسن یا ان کے بھتیجے یحییٰ بن عمارہ کی طرف کی گئی ہے وہاں مجاز پر محمول ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سائل عمرو بن ابی حسن ہیں اور یہ یحییٰ بن عمارہ کے حقیقی چچا اور عمرو بن یحییٰ کے عم الاب ہونے کی حیثیت سے عمرو بن یحییٰ کے مجازی دادا ہیں، اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ بعض حضرات نے عبارت میں (هُوَ) ضمیر کو عبد اللہ بن زید ؓ کی طرف راجع کیا ہے جو درست نہیں کیونکہ عبد اللہ بن زید حقیقی یا مجازی کسی بھی اعتبار سے عمرو بن یحییٰ کے دادا نہیں ہیں۔ ( فتح الباري:380/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
186
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
185
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
185
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
185
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قبل ازیں وضو میں دھوئے جانے والے اعضاء اور اس کے متعلقات کا ذکر کیا تھا اب ان اعضاء کو بیان کرنا چاہتے ہیں جن پر مسح کرنا چاہیے ان میں سر فہرست سر ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے بطور دلیل آیت کریمہ کو پیش کیا ہے۔کہ"اپنے سروں کا مسح کرو۔"عربی میں راس پورے سر کو کہتے ہیں سر کے کسی حصے کو راس نہیں کہا جاتا بلکہ اسے بعض راس کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی استیعاب (مکمل سر کا مسح کرنے)پر عمل فرمایا: حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے متعلق مسح کا ذکر کرتے ہوئے بعض کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جب عورت جب عورت کے لیے پورے سر کا مسح ضروری ہے حالانکہ عورت کے بال قابل ستر ہیں اس کے باوجود اسے رعایت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے دوپٹے پر مسح کر لے یا کچھ بالوں پر ہاتھ پھیرلے تو مردوں کے لیے توبالاولیٰ پورے سر کا مسح ضروری ہوا۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ(1/45)میں موصولاً بیان کیا گیا ہے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ ادائے فرض کے لیے اگر سر کے کچھ حصے کا مسح کر لیا جائے تو کافی ہو گا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے والے حضرت اسحاق بن عیسیٰ بن الطباع ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ میں ہے۔( صحیح ابن خزیمہ:1/81۔حدیث 157۔)
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “ اپنے سروں کا مسح کرو۔ ” اور ابن مسیب نے کہا ہے کہ سر کا مسح کرنے میں عورت مرد کی طرح ہے۔ وہ ( بھی ) اپنے سر کا مسح کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا کچھ حصہ سر کا مسح کرنا کافی ہے؟ تو انھوں نے دلیل میں عبداللہ بن زید کی ( یہ ) حدیث پیش کی، یعنی پورے سر کا مسح کرنا چاہیے۔
حدیث ترجمہ:
یحییٰ مازنی سے روایت ہے، ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے پوچھا، اور وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں: کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید ؓ نے کہا: ہاں۔ چنانچہ انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور ان کو دو مرتبہ دھویا۔ پھر تین مرتبہ کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ بعد ازاں اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا دونوں ہاتھوں سے مسح کیا، ہاتھوں کو آگے سے لے گئے اور پیچھے سے لائے۔ مسح سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور اس کے پچھلے حصے تک لے گئے۔ پھر جہاں سے شروع کیا تھا وہاں تک ہاتھوں کو لائے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح فرمایا۔ ( صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 636(274) ناصیہ سر کا وہ حصہ ہے جس کے بالوں کا رخ پیشانی کی طرف ہو۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض فقہاء نے چوتھائی سر کے مسح کو فرض قراردیا ہے، امام بخاری ؒ کا موقف ان کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں سر پر مسح کرنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی مقدار کے متعلق اجمال تھا جس کی وضاحت حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں مذکور ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت میں اگرچہ ناصیہ پر مسح کرنے کا ذکر ہے لیکن حدیث کے مطابق یہ اس صورت میں ہے جب سر پر پگڑی ہو۔ جتنا حصہ سر کا ننگا ہے اس پر مسح کر کے باقی پگڑی پر کر لیا جائے۔ اس طرح احادیث میں کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ جب پگڑی نہیں ہو گی تو تمام سر کا مسح کرنا ہو گا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے جو فقہاء آیت کریمہ میں ’’ب‘‘ کو زائد یا تبعیضیہ قرار دیتے ہیں ان کا موقف بھی درست نہیں، بلکہ یہ ’’ب‘‘ اِلصاق کے معنی میں مستعمل ہے۔ 2۔ حدیث میں (فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ) سے مقصود مسح کی کیفیت بیان کرنا ہے اور یہ دو حرکتیں ہیں جن سے مسح کی تکمیل ہوتی ہے، دوبارمسح کرنا نہیں کیونکہ اس روایت میں (اِقبال و اِدبار) کے ساتھ (مرة واحدة) کے الفاظ بھی مروی ہیں (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 186) اس سے معلوم ہوا کہ اقبال وادبار کے ساتھ بھی مسح کو ایک ہی بار سمجھا جاتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سامنے کے حصے سے مسح کرتے ہوئے گدی تک دونوں ہاتھ پہنچائے پھر ادھر سے مسح کرتے ہوئے سامنے تک آ جائے تاکہ پوری طرح سارے سر کا مسح ہو جائے۔ ویسے اقبال کے لغوی معنی اگلی طرف آنا اور ادبار کے پچھلی طرف جانا ہیں، لیکن یہ معنی روایت مذکور میں مقصود نہیں کیونکہ اس سے صورت برعکس ہو جاتی ہے جو غیر مقصود ہے۔ در حقیقت راوی نے یہاں ترتیب کی رعایت نہیں کی اور نہ واؤ عطف میں ترتیب ہی ہوتی ہے لیکن صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت میں (فَاَدبَرَ بِيَدِهِ وَاَقبَلَ) بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 199) وہ صحیح صورت واقعہ کا نقشہ پیش کرتی ہے اور لغوی معنی کے بھی مطابق ہے لیکن اگر (أَقْبَلَ) کے معنی کر لیے جائیں سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کیا (أَدْبَرَ) اور(پھر) پیچھے سے ہاتھ آگے لائے تو اس صورت میں ان کا مطلب بھی صحیح واضح ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم 3۔ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے وضو کے متعلق سوال کرنے والے عمرو بن ابی حسن ہیں، جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اگلے باب میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جو عمرو بن یحییٰ کے داداہیں جس کی صراحت خود روایت میں موجود ہے مؤطا امام مالک ؒ میں سائل کی تعیین کے متعلق مختلف روایات ہیں جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے پاس تین شخص تھے ایک ابو حسن انصاری دوسرے ان کے بیٹے عمرو بن ابی حسن اور تیسرے ان کے پوتے یحییٰ بن عمارہ بن ابی حسن یہ تینوں حضرات وضوئے نبوی معلوم کرنے کے لیے حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس کے متعلق سوال عمرو بن ابی حسن نے کیا، اب جہاں سوال کی نسبت عمرو بن ابی حسن کی طرف کی گئی ہے تو یہ حقیقت پر مبنی ہے لیکن جہاں ان کے والد ابو حسن یا ان کے بھتیجے یحییٰ بن عمارہ کی طرف کی گئی ہے وہاں مجاز پر محمول ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سائل عمرو بن ابی حسن ہیں اور یہ یحییٰ بن عمارہ کے حقیقی چچا اور عمرو بن یحییٰ کے عم الاب ہونے کی حیثیت سے عمرو بن یحییٰ کے مجازی دادا ہیں، اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ بعض حضرات نے عبارت میں (هُوَ) ضمیر کو عبد اللہ بن زید ؓ کی طرف راجع کیا ہے جو درست نہیں کیونکہ عبد اللہ بن زید حقیقی یا مجازی کسی بھی اعتبار سے عمرو بن یحییٰ کے دادا نہیں ہیں۔ ( فتح الباري:380/1)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اپنے سروں کا مسح کرو۔" حضرت ابن مسیب رحمہ اللہ نے کہا؛ عورت مرد کی طرح ہے۔ وہ اپنے سر پر مسح کرے گی۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: آیا یہ کافی ہے کہ انسان اپنے سر کے کچھ حصے کا مسح کر لے؟ تو انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ کی حدیث (جو آگے آ رہی ہے) بطور دلیل پیش کی، یعنی پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو امام مالک نے عمرو بن یحییٰ المازنی سے خبر دی، وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن زید ؓ جو عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں، سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کس طرح وضو کیا ہے؟ عبداللہ بن زید ؓ نے کہا کہ ہاں! پھر انھوں نے پانی کا برتن منگوایا، پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ (مسح) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ اور امام مالک ؒ کا مسلک یہ ہے کہ پورے سرکا مسح کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے اپنے ارشاد (المائدۃ: 6) میں کوئی حد مقرر نہیں کی کہ آدھے سر یا چوتھائی سر کا مسح کرو۔ جیسے ہاتھوں میں کہنیوں تک اور پیروں میں ٹخنوں تک کی قید موجود ہے، تومعلوم ہوا کہ سارے سر کا مسح فرض ہے جب سر پر عمامہ نہ ہو اور اگرعمامہ ہو تو پیشانی سے مسح شروع کرکے عمامہ پر ہاتھ پھیر لینا کافی ہے۔ عمامہ اتارنا ضروری نہیں۔ حدیث کی رو سے یہی مسلک صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yahya Al-Mazini (RA): A person asked ' Abdullah bin Zaid (RA) who was the grandfather of 'Amr bin Yahya, "Can you show me how Allah's Apostle (ﷺ) used to perform ablution?" ' Abdullah bin Zaid (RA) replied in the affirmative and asked for water. He poured it on his hands and washed them twice, then he rinsed his mouth thrice and washed his nose with water thrice by putting water in it and blowing it out. He washed his face thrice and after that he washed his forearms up to the elbows twice and then passed his wet hands over his head from its front to its back and vice versa (beginning from the front and taking them to the back of his head up to the nape of the neck and then brought them to the front again from where he had started) and washed his feet (up to the ankles).