باب : اس کی طرف سے حج بدل جس میں سواری پر بیٹھے رہنے کی طاقت نہ ہو
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Performing Hajj for a person who cannot sit firmly on the mount)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1854.
حضرت فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج نے میرے باپ کو اس حالت میں پایا ہے کہ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہےاور سواری پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو ادا ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاجز شخص حج کے لیے اپنا نائب مقرر کر سکتا ہے اور جو شخص خود حج کرنے پر قادر ہو اس کی طرف سے حج کے لیے نیابت صحیح نہیں۔ اگر اس کا عجز اس قسم کا ہے کہ وہ دور نہیں ہو سکتا تو ایسے حالات میں اسے چاہیے کہ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے کسی کو اپنا نائب مقرر کر دے۔ (2) امام بخاری نے حضرت فضل بن عباس ؓ سے مروی حدیث کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے انہیں بیان کیا ہے: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرے بوڑھے باپ پر اس حالت میں حج فرض ہوا ہے کہ اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’تم اس کی طرف سے حج کرو۔‘‘(فتح الباري:87/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1800.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1854
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1854
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1854
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج نے میرے باپ کو اس حالت میں پایا ہے کہ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہےاور سواری پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو ادا ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاجز شخص حج کے لیے اپنا نائب مقرر کر سکتا ہے اور جو شخص خود حج کرنے پر قادر ہو اس کی طرف سے حج کے لیے نیابت صحیح نہیں۔ اگر اس کا عجز اس قسم کا ہے کہ وہ دور نہیں ہو سکتا تو ایسے حالات میں اسے چاہیے کہ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے کسی کو اپنا نائب مقرر کر دے۔ (2) امام بخاری نے حضرت فضل بن عباس ؓ سے مروی حدیث کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے انہیں بیان کیا ہے: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرے بوڑھے باپ پر اس حالت میں حج فرض ہوا ہے کہ اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’تم اس کی طرف سے حج کرو۔‘‘(فتح الباري:87/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(دوسری سند سے امام بخاری نے ) کہا ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی اور عرض کی یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ حج جو اس کے بندوں پر ہے اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سواری پر بھی بیٹھ سکیں تو کیامیں ان کی طرف سے حج کرلوں توان کا حج ادا ہوجائے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
from the tribe of Khath'am came in the year (of ,Hajjat-ul-wada' of the Prophet) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My father has come under Allah's obligation of performing Hajj but he is a very old man and cannot sit properly on his Mount. Will the obligation be fulfilled if I perform Hajj on his behalf?" The Prophet (ﷺ) replied in the affirmative.