Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Hajj of women)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1864.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوئے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں۔۔۔ یا(راوی نےکہا کہ)وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے۔۔۔ جو مجھے بہت اچھی اور بھلی معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر محرم یا خاوند کے بغیر نہ کرے، نیز عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا روزہ نہ رکھا جائے، اس کے علاوہ نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور آخری بات کہ تین مسجدوں، مسجد حرام، میری مسجد اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے۔
تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد عورتوں کے حج کی مشروعیت بیان کرنا نہیں کیونکہ اس کے متعلق کوئی شک نہیں کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح حج کی مکلف ہیں، بلکہ امام بخاری یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے حج کے لیے آداب و شرائط مردوں جیسے ہیں یا ان کے لیے کوئی زائد امر بھی مطلوب ہے، چنانچہ عورت پر وجوب حج کے لیے محرم کا ہونا شرط ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے لیکن میرا نام فلاں، فلاں غزوے کے لیے لکھ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3272(1341)) (2) اس سلسلے میں امام بخاری نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جن کی ترتیب وار مختصر تشریح حسب ذیل ہے: ٭ پہلی حدیث حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں امہات المؤمنین کے حج کرنے سے متعلق ہے۔ دراصل حضرت عمر ؓ امہات المومنین ؓ کے بارے میں متردد تھے کہ انہیں حج پر جانے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے کیونکہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ)(الأحزاب33:33) ’’تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔"‘‘ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا: ’’حج یہی ہے۔ اس کے بعد تم نے گھروں میں بیٹھ رہنا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1722) چنانچہ آپ نے اپنے دور خلافت کے آخر میں امہات المومنین کو حج کی اجازت دی اور خود بھی ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کی خدمت کے لیے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو مامور فرمایا۔ اونٹوں کے قافلے کے آگے حضرت عثمان اور پیچھے حضرت عبدالرحمٰن ؓ تھے۔ حضرت عثمان ؓ وقفے وقفے سے یہ اعلان کرتے تھے: خبردار! یہ امہات المومنین کا قافلہ ہے۔ کوئی آدمی ان کے نزدیک نہ آئے اور نہ ان کی طرف دیکھنے کی جراءت ہی کرے۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں بھی انہوں نے حج کا فریضہ سرانجام دیا۔ ٭ دوسری حدیث میں بھی عورتوں کو حج کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے حق میں اسے افضل الجہاد قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں جہاد میں شریک ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ جہاد میں جاتیں اور زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ٭ تیسری حدیث میں وہ شرط بیان کی گئی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے جیسا کہ دارقطنی نے اسے بیان کیا ہے (سنن الدارقطني، الحج:222/2) اور ابو عوانہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام احمد ؒ نے اس حدیث کے عموم کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر حج فرض نہیں۔ چونکہ ازواج مطہرات کے تمام اہل ایمان روحانی بیٹے ہیں، اس لیے ان کا حج اپنے روحانی محارم کے ساتھ ہی تھا۔ یہ واقعہ ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتا جو محرم کے بغیر عورتوں کے حج کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ٭ چوتھی حدیث کا مدلول یہ ہے کہ جب کوئی عورت فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ کرے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ حج کرے۔ یہ جہاد سے بہتر ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض نہ ہو۔ ٭ پانچویں حدیث کے مطابق عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو دن کا سفر بھی محرم کے بغیر طے کرے۔ اس سے زیادہ مدت سفر بطریق اولیٰ جائز نہیں، یعنی عورت کوئی بھی سفر محرم یا شوہر کے بغیر نہیں کر سکتی، خواہ سفر حج ہو یا اس کے علاوہ۔ الغرض عورت کے لیے حج کرنے سے متعلق ایک زائد شرط ہے کہ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ جو عورتیں کسی اجنبی کو محرم بنا کر حج پر جاتی ہیں، وہ دو چند گناہ کا ارتکاب کرتی ہیں: ایک تو حدیث کی مخالفت، دوسرے جھوٹ کی لعنت، اس لیے ایسا کرنا ثواب کے بجائے گناہ کمانا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1810
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1864
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1864
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1864
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوئے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں۔۔۔ یا(راوی نےکہا کہ)وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے۔۔۔ جو مجھے بہت اچھی اور بھلی معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر محرم یا خاوند کے بغیر نہ کرے، نیز عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا روزہ نہ رکھا جائے، اس کے علاوہ نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور آخری بات کہ تین مسجدوں، مسجد حرام، میری مسجد اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد عورتوں کے حج کی مشروعیت بیان کرنا نہیں کیونکہ اس کے متعلق کوئی شک نہیں کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح حج کی مکلف ہیں، بلکہ امام بخاری یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے حج کے لیے آداب و شرائط مردوں جیسے ہیں یا ان کے لیے کوئی زائد امر بھی مطلوب ہے، چنانچہ عورت پر وجوب حج کے لیے محرم کا ہونا شرط ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے لیکن میرا نام فلاں، فلاں غزوے کے لیے لکھ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3272(1341)) (2) اس سلسلے میں امام بخاری نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جن کی ترتیب وار مختصر تشریح حسب ذیل ہے: ٭ پہلی حدیث حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں امہات المؤمنین کے حج کرنے سے متعلق ہے۔ دراصل حضرت عمر ؓ امہات المومنین ؓ کے بارے میں متردد تھے کہ انہیں حج پر جانے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے کیونکہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ)(الأحزاب33:33) ’’تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔"‘‘ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا: ’’حج یہی ہے۔ اس کے بعد تم نے گھروں میں بیٹھ رہنا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1722) چنانچہ آپ نے اپنے دور خلافت کے آخر میں امہات المومنین کو حج کی اجازت دی اور خود بھی ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کی خدمت کے لیے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو مامور فرمایا۔ اونٹوں کے قافلے کے آگے حضرت عثمان اور پیچھے حضرت عبدالرحمٰن ؓ تھے۔ حضرت عثمان ؓ وقفے وقفے سے یہ اعلان کرتے تھے: خبردار! یہ امہات المومنین کا قافلہ ہے۔ کوئی آدمی ان کے نزدیک نہ آئے اور نہ ان کی طرف دیکھنے کی جراءت ہی کرے۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں بھی انہوں نے حج کا فریضہ سرانجام دیا۔ ٭ دوسری حدیث میں بھی عورتوں کو حج کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے حق میں اسے افضل الجہاد قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں جہاد میں شریک ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ جہاد میں جاتیں اور زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ٭ تیسری حدیث میں وہ شرط بیان کی گئی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے جیسا کہ دارقطنی نے اسے بیان کیا ہے (سنن الدارقطني، الحج:222/2) اور ابو عوانہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام احمد ؒ نے اس حدیث کے عموم کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر حج فرض نہیں۔ چونکہ ازواج مطہرات کے تمام اہل ایمان روحانی بیٹے ہیں، اس لیے ان کا حج اپنے روحانی محارم کے ساتھ ہی تھا۔ یہ واقعہ ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتا جو محرم کے بغیر عورتوں کے حج کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ٭ چوتھی حدیث کا مدلول یہ ہے کہ جب کوئی عورت فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ کرے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ حج کرے۔ یہ جہاد سے بہتر ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض نہ ہو۔ ٭ پانچویں حدیث کے مطابق عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو دن کا سفر بھی محرم کے بغیر طے کرے۔ اس سے زیادہ مدت سفر بطریق اولیٰ جائز نہیں، یعنی عورت کوئی بھی سفر محرم یا شوہر کے بغیر نہیں کر سکتی، خواہ سفر حج ہو یا اس کے علاوہ۔ الغرض عورت کے لیے حج کرنے سے متعلق ایک زائد شرط ہے کہ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ جو عورتیں کسی اجنبی کو محرم بنا کر حج پر جاتی ہیں، وہ دو چند گناہ کا ارتکاب کرتی ہیں: ایک تو حدیث کی مخالفت، دوسرے جھوٹ کی لعنت، اس لیے ایسا کرنا ثواب کے بجائے گناہ کمانا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن عمر نے، ان سے زیاد کے غلام قزعہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوسعید خدری ؓ سے سنا جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے چار باتیں نبی کریم ﷺ سے سنی تھیں یا یہ کہ وہ یہ چار باتیں نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے اورکہتے تھے کہ یہ باتیں مجھے انتہائی پسند ہیں یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی ذو رحم محرم نہ ہو، نہ عید الفطر اور عید الاضحی کے روزے رکھے جائیں نہ عصر کی نماز کے بعد غروب ہونے کے پہلے اور نہ صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز پڑھی جائے اورنہ تین مساجد کے سوا کسی کے لیے کجاوے باندھے جائیں مسجد حرام، میری مسجد اورمسجد اقصیٰ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qaza'a, the slave of Ziyad: Abu Said who participated in twelve Ghazawat with the Prophet (ﷺ) said, "I heard four things from Allah's Apostle (ﷺ) (or I narrate them from the Prophet) which won my admiration and appreciation. They are: 1. "No lady should travel without her husband or without a Dhu-Mahram for a two-days' journey. 2. No fasting is permissible on two days of 'Id-al-Fitr, and 'Id-al-Adha. 3. No prayer (may be offered) after two prayers: after the 'Asr prayer till the sun set and after the morning prayer till the sun rises. 4. Not to travel (for visiting) except for three mosques: Masjid-al-Haram (in Makkah), my Mosque (in Medina), and Masjid-al-Aqsa (in Jerusalem)."