Sahi-Bukhari:
Virtues of Madinah
(Chapter: The one who avoids living in Al-Madina?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1875.
حضرت سفیان بن ابو زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’(جب) یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو اورجو ان کا کہا مانیں گے انھیں سوار کرکے مدینہ طیبہ سے لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور(جب) شام فتح ہوگا تو بھی ایک جماعت اپنے اونٹ ہانکتی ہوئی آئے گی۔ اپنے اہل وعیال اور ان کی تابعداری کرنے والوں کو لاد کر لے جائے گی۔ کاش!انھیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہے (اسی طرح) عراق فتح ہوگا تو بھی کچھ لوگ اپنے جانور ہانکتے آئیں گے مدینہ طیبہ سے اپنے گھر والوں اور متعلقین کو نکال کر لے جائیں گے۔ کاش!وہ جانتے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر تھا۔‘‘
تشریح:
1۔ایک روایت میں اس حدیث کا سبب بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے راوئ حدیث حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ کو کسی مہم کے لیے روانہ کیا۔ جب وہ وادئ عقیق پہنچے تو ان کا گھوڑا بیمار ہو گیا۔ انہوں نے واپس آ کر رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھوڑے کے متعلق عرض کی تو آپ اس کے لیے گھوڑے کا بندوبست کرنے کی غرض سے نکلے۔ حضرت ابوجہم بن حذیفہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا۔ آپ نے اس سے اس کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا: مجھے قیمت کی چنداں ضرورت نہیں، آپ اسے لے لیں اور جسے چاہیں دے دیں۔ جب آپ وہاں سے واپس ہوئے اور بئراہاب پر پہنچے تو حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ سے فرمایا: ’’مدینہ طیبہ کی آبادی اس مقام تک آ جائے گی۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ملک شام فتح ہو گا، مدینہ طیبہ کے لوگ وہاں جائیں گے تو اس کی خوشحالی اور زرخیزی انہیں خیرہ کر دے گی۔ کاش کے مدینہ طیبہ کی قدروقیمت انہیں معلوم ہو۔ بہرحال ان کا مدینہ طیبہ میں رہنا بہتر ہو گا۔‘‘ (مسندأحمد:220/5) (2) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی، چنانچہ حدیث میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق یہ علاقے فتح ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور سیدنا ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں یمن کے علاقے فتح ہوئے، اس کے بعد شام پھر عراق فتح ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے کوچ کر کے وہاں جانے کو پسند نہیں فرمایا کیونکہ مدینہ طیبہ کا حرم، وحی اور برکات اترنے کی جگہ ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ بہرحال مدینہ طیبہ سے نکل کر کسی دوسرے شہر میں آباد ہونے والا وہ شخص قابل مذمت ہے جو نفرت و کراہت کرتے ہوئے یہاں سے جائے، البتہ جہاد، حصول علم، تبلیغ دین یا کسی اور ضرورت کے پیش نظر یہاں سے جانے والا اس وعید سے خارج ہے۔ (فتح الباري:120/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1821
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1875
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1875
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1875
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت سفیان بن ابو زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’(جب) یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو اورجو ان کا کہا مانیں گے انھیں سوار کرکے مدینہ طیبہ سے لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور(جب) شام فتح ہوگا تو بھی ایک جماعت اپنے اونٹ ہانکتی ہوئی آئے گی۔ اپنے اہل وعیال اور ان کی تابعداری کرنے والوں کو لاد کر لے جائے گی۔ کاش!انھیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر ہے (اسی طرح) عراق فتح ہوگا تو بھی کچھ لوگ اپنے جانور ہانکتے آئیں گے مدینہ طیبہ سے اپنے گھر والوں اور متعلقین کو نکال کر لے جائیں گے۔ کاش!وہ جانتے کہ مدینہ طیبہ ان کے لیے بہتر تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں اس حدیث کا سبب بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے راوئ حدیث حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ کو کسی مہم کے لیے روانہ کیا۔ جب وہ وادئ عقیق پہنچے تو ان کا گھوڑا بیمار ہو گیا۔ انہوں نے واپس آ کر رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھوڑے کے متعلق عرض کی تو آپ اس کے لیے گھوڑے کا بندوبست کرنے کی غرض سے نکلے۔ حضرت ابوجہم بن حذیفہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا۔ آپ نے اس سے اس کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا: مجھے قیمت کی چنداں ضرورت نہیں، آپ اسے لے لیں اور جسے چاہیں دے دیں۔ جب آپ وہاں سے واپس ہوئے اور بئراہاب پر پہنچے تو حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ سے فرمایا: ’’مدینہ طیبہ کی آبادی اس مقام تک آ جائے گی۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ملک شام فتح ہو گا، مدینہ طیبہ کے لوگ وہاں جائیں گے تو اس کی خوشحالی اور زرخیزی انہیں خیرہ کر دے گی۔ کاش کے مدینہ طیبہ کی قدروقیمت انہیں معلوم ہو۔ بہرحال ان کا مدینہ طیبہ میں رہنا بہتر ہو گا۔‘‘ (مسندأحمد:220/5) (2) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی، چنانچہ حدیث میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق یہ علاقے فتح ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور سیدنا ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں یمن کے علاقے فتح ہوئے، اس کے بعد شام پھر عراق فتح ہوا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے کوچ کر کے وہاں جانے کو پسند نہیں فرمایا کیونکہ مدینہ طیبہ کا حرم، وحی اور برکات اترنے کی جگہ ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ بہرحال مدینہ طیبہ سے نکل کر کسی دوسرے شہر میں آباد ہونے والا وہ شخص قابل مذمت ہے جو نفرت و کراہت کرتے ہوئے یہاں سے جائے، البتہ جہاد، حصول علم، تبلیغ دین یا کسی اور ضرورت کے پیش نظر یہاں سے جانے والا اس وعید سے خارج ہے۔ (فتح الباري:120/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن زبیر ؓمانے اوران سے سفیان بن ابی زہیر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ یمن فتح ہو گا تو لوگ اپنی سواریوں کو دوڑاتے ہوئے لائیں گے اوراپنے گھر والوں کو اور ان کو جو ان کی بات مان جائیں گے سوار کرکے مدینہ سے (واپس یمن کو ) لے جائیں گے کاش ! انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا اور عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنی سواریوں کو تیز دوڑاتے ہوئے لائیں گے اوراپنے گھر والوں کو اورجو ان کی بات مانیں گے اپنے ساتھ (عراق واپس ) لے جائیں گے کاش ! انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی بشارت بالکل صحیح ثابت ہوئی، مدینہ ایک مدت تک ایران، عرب، مصر اور شام توران کا پایہ تخت رہا اور خلفائے راشدین نے مدینہ منور میں رہ کر دور دور اطراف عالم میں حکومت کی، پھر بنو امیہ نے اپنا پایہ تحت شام کو قرا ردیا اورعباسیہ کے وقت میں بغداد اسلام کی راجدھانی قرارپایا، آخری خلیفہ معتصم باللہ ہوا اور اس کے زوال سے اسلامی خلافت مٹ گئی، مسلمان گروہ گروہ تقسیم ہو کر ہر جگہ مغلوب ہو گئے، اب تک یہی حال ہے کہ عربوں کی ایک بڑی تعداد ہے، ان کی حکومتیں ہیں، باہمی اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر یہود قابض ہیں۔ إنا للہ و إنا إلیه راجعون۔ اللهم انصر الإسلام و المسلمین و اخذل الکفرة و الفجرة و الیهود والملحدین ( آمین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Zuhair: I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "Yemen will be conquered and some people will migrate (from Medina) and will urge their families, and those who will obey them to migrate (to Yemen) although Madinah will be better for them; if they but knew. Sham will also be conquered and some people will migrate (from Medina) and will urge their families and those who will obey them, to migrate (to Sham) although Madinah will be better for them; if they but knew. 'Iraq will be conquered and some people will migrate (from Medina) and will urge their families and those who will obey them to migrate (to 'Iraq) although Madinah will be better for them; if they but knew."