باب : اس بارے میں کہ ایمان مدینہ کی طرف سمٹ آئے گا
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of Madinah
(Chapter: Iman (Belief) returns and goes back to Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1876.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(قیامت کے قریب) ایمان مدینہ کی جانب اس طرح سمٹ کر آجائے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ جاتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) تشبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ایمان مدینہ طیبہ سے دوسرے شہروں کی طرف پھیلے گا تو مدینہ طیبہ میں ایمان بالکل نہیں رہے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایمان کا سرچشمہ مدینہ طیبہ سے پھوٹا۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے قرون ثلاثہ تک اسلام بڑا غالب رہا۔ پھر اس کے بعد حالات بدل گئے، بدعات کا دور دورہ ہوا اور باطل فرقے اپنے زہر آلود عقائد باطلہ سے مسلمانوں کے دین و ایمان کو لوٹنے لگے۔ بالآخر قریب قیامت کے وقت ایمان کو پناہ مدینہ طیبہ ہی میں ملے گی۔ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لیے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر کے آئیں گے جیسا کہ سانپ اپنے بل سے نکل کر اِدھر اُدھر پھرتا ہے، پھر جب وہ کسی سے خوف محسوس کرتا ہے تو اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔ (2) قرب قیامت کے وقت ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ مدینہ طیبہ کے علاوہ کہیں بھی کوئی مومن نہیں رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ مدینہ طیبہ تمام شہروں کے آخر میں تباہی سے دوچار ہو گا، یہ اس لیے کہ اس میں آخر وقت تک ایمان باقی رہے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1822
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1876
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1876
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1876
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(قیامت کے قریب) ایمان مدینہ کی جانب اس طرح سمٹ کر آجائے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ جاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) تشبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ایمان مدینہ طیبہ سے دوسرے شہروں کی طرف پھیلے گا تو مدینہ طیبہ میں ایمان بالکل نہیں رہے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایمان کا سرچشمہ مدینہ طیبہ سے پھوٹا۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے قرون ثلاثہ تک اسلام بڑا غالب رہا۔ پھر اس کے بعد حالات بدل گئے، بدعات کا دور دورہ ہوا اور باطل فرقے اپنے زہر آلود عقائد باطلہ سے مسلمانوں کے دین و ایمان کو لوٹنے لگے۔ بالآخر قریب قیامت کے وقت ایمان کو پناہ مدینہ طیبہ ہی میں ملے گی۔ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لیے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر کے آئیں گے جیسا کہ سانپ اپنے بل سے نکل کر اِدھر اُدھر پھرتا ہے، پھر جب وہ کسی سے خوف محسوس کرتا ہے تو اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔ (2) قرب قیامت کے وقت ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ مدینہ طیبہ کے علاوہ کہیں بھی کوئی مومن نہیں رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ مدینہ طیبہ تمام شہروں کے آخر میں تباہی سے دوچار ہو گا، یہ اس لیے کہ اس میں آخر وقت تک ایمان باقی رہے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خبیب بن عبدالرحمن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اوران سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے قریب ) ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آجایا کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اسی طرح اخیر زمانہ میں سچے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں چلے جائیں گے۔ حافظ نے کہا یہ آنحضرت ﷺ اور خلفاءراشدین کے زمانوں میں تھا، قیامت کے قریب پھر ایسا ہی دور پلٹ کر آئے گا وما ذلك علی اللہ بعزیز۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Verily, Belief returns and goes back to Madinah as a snake returns and goes back to its hole (when in danger)."