Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: As-Saum (the fasting) is an expiation (for sins))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1895.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ فتنے کے متعلق نبی کریم ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛ ’’انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس فتنے کے متعلق نہیں پوچھ رہاہوں بلکہ مجھے اس فتنے کے بارے میں دریافت کرنا ہے۔ جو سمندر کی طرح موجزن ہوگا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا کہ اس فتنے سے پہلے ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا: اس دروازے کو کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟عرض کیا: اسے توڑا جائے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: پھر تو یہ دروازہ اس لائق ہے کہ قیامت کے دن تک بند نہ ہو۔ ہم نے راوی حدیث مسروق سے دریافت کیا: تم ان سے پوچھو کہ آیا حضرت عمر ؓ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے جواب دیا کہ ہاں، انھیں بخوبی علم تھا جیسے وہ جانتے تھے کہ کل سے پہلے رات کا آنا یقینی ہے۔
تشریح:
(1) اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾’’نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ (ھود114:11) لیکن کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوں گے۔ اس طرح حقوق العباد بھی حق دینے یا معافی لینے سے معاف ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ توبہ گناہوں کی معافی کے لیے شرط نہیں اللہ تعالیٰ کسی اور نیکی کی بنا پر بھی کبیرہ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے، البتہ توبہ گناہوں کی معافی کا ایک اہم سبب ضرور ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کو اپنے شہید ہونے کا حتمی علم تھا جیسے کل کے دن سے پہلے رات کا آنا یقینی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوا کہ سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا دروازہ کھلا جو ابھی تک بند نہیں ہوا۔ ملت اسلامیہ آج تک ان فتنوں سے دوچار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں اور رمضان سے دوسرے رمضان تک اگر انسان بڑے گناہوں سے پرہیز کرے تو یہ دوسرے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:552(233)) ایک اور حدیث میں ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کی حدود کو پہچانا تو یہ روزے گذشتہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوں گے۔ (شعب الإیمان، فضائل شھررمضان:310/3) (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب الصلاة كفارة)’’نماز کفارہ ہے۔‘‘ اسی طرح کتاب الزکاۃ میں ایک باب اس طرح قائم کیا ہے: (باب الصدقة تكفر الخطيئة)’’صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ بہرحال روزہ رکھنے سے اجروثواب کے ساتھ ساتھ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (فتح الباري:143/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1841
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1895
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1895
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1895
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ فتنے کے متعلق نبی کریم ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا؛ ’’انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی باعث آزمائش ہیں جس کاکفارہ نماز پڑھنا روزہ رکھنا اور صدقہ دینا بن جاتا ہے۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اس فتنے کے متعلق نہیں پوچھ رہاہوں بلکہ مجھے اس فتنے کے بارے میں دریافت کرنا ہے۔ جو سمندر کی طرح موجزن ہوگا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا کہ اس فتنے سے پہلے ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا: اس دروازے کو کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا؟عرض کیا: اسے توڑا جائے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: پھر تو یہ دروازہ اس لائق ہے کہ قیامت کے دن تک بند نہ ہو۔ ہم نے راوی حدیث مسروق سے دریافت کیا: تم ان سے پوچھو کہ آیا حضرت عمر ؓ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے جواب دیا کہ ہاں، انھیں بخوبی علم تھا جیسے وہ جانتے تھے کہ کل سے پہلے رات کا آنا یقینی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾’’نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ (ھود114:11) لیکن کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوں گے۔ اس طرح حقوق العباد بھی حق دینے یا معافی لینے سے معاف ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ توبہ گناہوں کی معافی کے لیے شرط نہیں اللہ تعالیٰ کسی اور نیکی کی بنا پر بھی کبیرہ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے، البتہ توبہ گناہوں کی معافی کا ایک اہم سبب ضرور ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کو اپنے شہید ہونے کا حتمی علم تھا جیسے کل کے دن سے پہلے رات کا آنا یقینی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوا کہ سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا دروازہ کھلا جو ابھی تک بند نہیں ہوا۔ ملت اسلامیہ آج تک ان فتنوں سے دوچار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں اور رمضان سے دوسرے رمضان تک اگر انسان بڑے گناہوں سے پرہیز کرے تو یہ دوسرے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:552(233)) ایک اور حدیث میں ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کی حدود کو پہچانا تو یہ روزے گذشتہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوں گے۔ (شعب الإیمان، فضائل شھررمضان:310/3) (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب الصلاة كفارة)’’نماز کفارہ ہے۔‘‘ اسی طرح کتاب الزکاۃ میں ایک باب اس طرح قائم کیا ہے: (باب الصدقة تكفر الخطيئة)’’صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ بہرحال روزہ رکھنے سے اجروثواب کے ساتھ ساتھ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (فتح الباري:143/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے حذیفہ ؓ نے کہ حضرت عمر ؓ نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر ؓ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ ؓ نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا ) عمر ؓ نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ حذیفہ ؓ نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ ؓ سے پوچھئے کہ کیا عمر ؓ کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چنانچہ مسروق نے پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا ہاں! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا ) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتاہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں نماز کے ساتھ روزہ کو بھی گناہوں کا کفارہ کہا گیا ہے یہی باب کا مقصد ہے، یہاں جن فتنوں کی طرف اشارہ ہے ان سے وہ فتنے مراد ہیں جو خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئے تھے اور آج تک ان فتنوں کے خطرناک اثرات امت میں افتراق کی شکل میں باقی ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی فراست کی بنا پر جو کچھ فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ اللهم صل وسلم علی حبیبك و علی صاحبه و اغفرلنا و ارحمنا یا أرحم الراحمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail from Hudhaifa (RA): Umar asked the people, "Who remembers the narration of the Prophet (ﷺ) about the affliction?" Hudhaifa said, "I heard the Prophet (ﷺ) saying, 'The affliction of a person in his property, family and neighbors is expiated by his prayers, fasting, and giving in charity." 'Umar said, "I do not ask about that, but I ask about those afflictions which will spread like the waves of the sea." Hudhaifa replied, "There is a closed gate in front of those afflictions." 'Umar asked, "Will that gate be opened or broken?" He replied, "It will be broken." 'Umar said, "Then the gate will not be closed again till the Day of Resurrection." We said to Masruq, "Would you ask Hudhaifa whether 'Umar knew what that gate symbolized?" He asked him and he replied "He ('Umar) knew it as one knows that there will be night before tomorrow, morning.