باب : روزہ داروں کے لیے ریان (نامی ایک دروازہ جنت میں بنایا گیا ہے اس کی تفصیل کا بیان )
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Ar-Raiyan is for people observing Saum)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1897.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اسے کہا جائے گا: اللہ کے بندے!یہ دروازہ بہتر ہے پھر نمازیوں کو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور مجاہدین کو جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور روزہ داروں کو باب ریان سے پکارا جائے گا اور صدقہ کرنے والوں کو صدقے کے دروازے سے اندر آنے کی دعوت دی جائے گی۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جو شخص ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا اسے تو کوئی ضرورت نہ ہوگی تو کیا کوئی ایسا آدمی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں، مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہوگے۔‘‘
تشریح:
(1) "زوجین" سے مراد دو چیزوں کو خرچ کرنا ہے اگرچہ وہ مال کی کوئی بھی قسم ہو، مثلا: درہم اور کپڑا وغیرہ۔ حدیث میں ہے: جو شخص دو چیزیں صدقہ کرے جنت کے محافظ بہت جلد اسے اپنے ساتھ لیتے ہیں۔(مسندأحمد:153/5) مسند احمد میں ہے کہ ہر نیک عمل کرنے والے کے لیے جنت میں داخل ہونے کے اعتبار سے ایک الگ دروازہ ہو گا، چنانچہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریان سے دعوت دی جائے گی۔ (مسندأحمد:438/1) یہ حدیث امام بخاری ؒ کے مقصود کی وضاحت کرتی ہے۔ (فتح الباري:145/4) (2) اس حدیث سے قطعی طور پر حضرت ابوبکر ؓ کے جنتی ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ انبیائے کرام ؑ کے بعد اہل جنت میں سب سے اعلیٰ و افضل ہوں گے کہ فرشتے انہیں جنت کے ہر دروازے سے اندر آنے کی دعوت دیں گے۔ اس بنا پر ان لوگوں کا کردار انتہائی قابل افسوس ہے جو اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1843
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1897
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1897
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1897
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اسے کہا جائے گا: اللہ کے بندے!یہ دروازہ بہتر ہے پھر نمازیوں کو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور مجاہدین کو جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور روزہ داروں کو باب ریان سے پکارا جائے گا اور صدقہ کرنے والوں کو صدقے کے دروازے سے اندر آنے کی دعوت دی جائے گی۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جو شخص ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا اسے تو کوئی ضرورت نہ ہوگی تو کیا کوئی ایسا آدمی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں، مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہوگے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) "زوجین" سے مراد دو چیزوں کو خرچ کرنا ہے اگرچہ وہ مال کی کوئی بھی قسم ہو، مثلا: درہم اور کپڑا وغیرہ۔ حدیث میں ہے: جو شخص دو چیزیں صدقہ کرے جنت کے محافظ بہت جلد اسے اپنے ساتھ لیتے ہیں۔(مسندأحمد:153/5) مسند احمد میں ہے کہ ہر نیک عمل کرنے والے کے لیے جنت میں داخل ہونے کے اعتبار سے ایک الگ دروازہ ہو گا، چنانچہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریان سے دعوت دی جائے گی۔ (مسندأحمد:438/1) یہ حدیث امام بخاری ؒ کے مقصود کی وضاحت کرتی ہے۔ (فتح الباري:145/4) (2) اس حدیث سے قطعی طور پر حضرت ابوبکر ؓ کے جنتی ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ انبیائے کرام ؑ کے بعد اہل جنت میں سب سے اعلیٰ و افضل ہوں گے کہ فرشتے انہیں جنت کے ہر دروازے سے اندر آنے کی دعوت دیں گے۔ اس بنا پر ان لوگوں کا کردار انتہائی قابل افسوس ہے جو اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے معین بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے ” باب ریان “ سے بلایا جائے گا اور جو زکوۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر ؓ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ﷺ ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاں اور بہت سی باتیں معلوم ہوئیں وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی اور زبان رسالت مآب ﷺ نے ان کو اعلیٰ درجہ کا جنتی قرار دیا ہے۔ تف ہے ان لوگوں پر جو اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی شان میں گستاخی کریں۔ هداهم اللہ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever gives two kinds (of things or property) in charity for Allah's Cause, will be called from the gates of Paradise and will be addressed, 'O slaves of Allah! Here is prosperity.' So, whoever was amongst the people who used to offer their prayers, will be called from the gate of the prayer; and whoever was amongst the people who used to participate in Jihad, will be called from the gate of Jihad; and whoever was amongst those who used to observe fasts, will be called from the gate of Ar-Raiyan; whoever was amongst those who used to give in charity, will be called from the gate of charity." Abu Bakr (RA) said, "Let my parents be sacrificed for you, O Allah's Apostle (ﷺ) ! No distress or need will befall him who will be called from those gates. Will there be any one who will be called from all these gates?" The Prophet (ﷺ) replied, "Yes, and I hope you will be one of them."