باب : نبی کریم ﷺ رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The Prophet saws used to be most generous in the month of Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1902.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کی سخاوت کرنے والے ہوتے تھے۔ اور سب سے زیادہ آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں ہوتی تھی جبکہ حضرت جبرئیل ؑ سے آپ کی ملاقات ہوتی تھی۔ حضرت جبرئیل ؑ رمضان المبارک کے ختم ہونے تک ہر رات آپ سے ملاقات کرتے، نبی کریم ﷺ ان سے قرآن مجید کا دور فرماتے، جس وقت آپ ﷺ سے حضرت جبرئیل ؑ کی ملاقات ہوتی تو آپ کھلی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔
تشریح:
(1) عربی زبان میں "جود" اور "سخا" کا فرق یہ ہے کہ سخاوت کرتے وقت انسان اپنے اہل و عیال کا بھی خیال رکھتا ہے جبکہ جود فرماتے تھے۔ ماہ رمضان میں اس لیے زیادہ سخاوت کرتے کہ اس میں ثواب دوچند ہو جاتا ہے اور اس میں اعلیٰ عبادت، یعنی روزے رکھنے کا اہتمام ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس میں شب قدر بھی ہے، نیز اس لیے بھی زیادہ سخاوت کرتے کہ اس میں حضرت جبرئیل ؑ سے آپ کی ملاقات ہوتی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب بزرگان دین کسی کے گھر آئیں تو دل کھول کر سخاوت کرنی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا۔ (عمدةالقاري:33/8) (4) کھلی ہوا سے مراد بارش سے قبل آنے والی ہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ بارش برسانے کے لیے چھوڑتا ہے۔ جب بارش برستی ہے تو زمین کے ہر خطے کو اس سے فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی جودوسخا سے ہر فقیر و تنگ دست اور غنی و مالدار کو فائدہ پہنچتا تھا۔ کھلی ہوا سے تشبیہ دینے کا یہی مقصد ہے۔ (فتح الباري:150/4)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1848
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1902
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1902
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1902
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کی سخاوت کرنے والے ہوتے تھے۔ اور سب سے زیادہ آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں ہوتی تھی جبکہ حضرت جبرئیل ؑ سے آپ کی ملاقات ہوتی تھی۔ حضرت جبرئیل ؑ رمضان المبارک کے ختم ہونے تک ہر رات آپ سے ملاقات کرتے، نبی کریم ﷺ ان سے قرآن مجید کا دور فرماتے، جس وقت آپ ﷺ سے حضرت جبرئیل ؑ کی ملاقات ہوتی تو آپ کھلی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عربی زبان میں "جود" اور "سخا" کا فرق یہ ہے کہ سخاوت کرتے وقت انسان اپنے اہل و عیال کا بھی خیال رکھتا ہے جبکہ جود فرماتے تھے۔ ماہ رمضان میں اس لیے زیادہ سخاوت کرتے کہ اس میں ثواب دوچند ہو جاتا ہے اور اس میں اعلیٰ عبادت، یعنی روزے رکھنے کا اہتمام ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس میں شب قدر بھی ہے، نیز اس لیے بھی زیادہ سخاوت کرتے کہ اس میں حضرت جبرئیل ؑ سے آپ کی ملاقات ہوتی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب بزرگان دین کسی کے گھر آئیں تو دل کھول کر سخاوت کرنی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا۔ (عمدةالقاري:33/8) (4) کھلی ہوا سے مراد بارش سے قبل آنے والی ہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ بارش برسانے کے لیے چھوڑتا ہے۔ جب بارش برستی ہے تو زمین کے ہر خطے کو اس سے فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی جودوسخا سے ہر فقیر و تنگ دست اور غنی و مالدار کو فائدہ پہنچتا تھا۔ کھلی ہوا سے تشبیہ دینے کا یہی مقصد ہے۔ (فتح الباري:150/4)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبریل ؑ آپ سے رمضان میں ملتے، جبریل ؑ آنحضرت ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبریل ؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب حضرت جبریل آپ سے ملنے لگتے تو آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) was the most generous amongst the people, and he used to be more so in the month of Ramadan when Gabriel (ؑ) visited him, and Gabriel (ؑ) used to meet him on every night of Ramadan till the end of the month. The Prophet (ﷺ) used to recite the Holy Qur'an to Gabriel (ؑ), and when Gabriel (ؑ) met him, he used to be more generous than a fast wind (which causes rain and welfare).