Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: As-Saum for those who fear committing illegal sexual acts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1905.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ آپ نے فرمایا: ’’جوشخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرلے کیونکہ یہ نگاہ نیچا کرتی ہے اور بدکاری سے بچاتی ہے اور جو شخص اس کی قدرت نہ رکھتا ہوتو وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ شہوت کوتوڑنے والا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نکاح کے اخراجات پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ جماع کی طاقت رکھتا ہے وہ ضرور نکاح کرے اور جو کوئی نکاح کے اخراجات پر قادر نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ ایسا کرنے سے شہوت کمزور ہو جاتی ہے اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ آغاز میں حرارت غریزی کے جوش مارنے سے شہوت زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن چند روزے رکھنے کے بعد شہوت کے کمزور ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے، کیونکہ جماع کی خواہش کھانے پینے کے تابع ہوتی ہے، وہ کھانے پینے سے قوی اور اس سے پرہیز کرنے سے کمزور ہوتی ہے، اس لیے زیادہ روزے رکھنے سے شہوت خودبخود کمزور ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:153/4) (2) واضح رہے کہ نکاح کی تین اقسام ہیں: ٭ اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت ہے۔ شریعت نے اس کی ترغیب دی ہے۔ ٭ غلبۂ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ کی حفاظت اور نگاہ میں حیا آتا ہے۔ ٭ جب اسے بیوی پر ظلم کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ ہے کیونکہ نکاح کی مشروعیت مصالح کے تابع ہے، ایسے حالات میں انسان کو روزے رکھنے چاہئیں۔ (3) واضح رہے کہ روزہ اللہ کی رضا کے لیے اس وقت ہوتا ہے جب اس سے کوئی دینی یا دنیوی مصلحت وابستہ نہ کی جائے، زنا سے بچنے کے لیے روزہ رکھنا اس اخلاص کے منافی ہے، یہ ایک اعتراض ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی عبادت پر کوئی دینی غرض مرتب ہوتی ہو تو اس کا ارادہ کرنا اخلاص کے لیے نقصان دہ نہیں۔ زنا سے بچنا جو روزہ رکھنے پر مرتب ہوتا ہے اس سے بھی اللہ کی رضا مقصود ہے۔ تو یہ غرض روزے کی اصلی غرض کے منافی نہیں ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1851
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1905
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1905
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1905
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے کہ آپ نے فرمایا: ’’جوشخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرلے کیونکہ یہ نگاہ نیچا کرتی ہے اور بدکاری سے بچاتی ہے اور جو شخص اس کی قدرت نہ رکھتا ہوتو وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ شہوت کوتوڑنے والا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نکاح کے اخراجات پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ جماع کی طاقت رکھتا ہے وہ ضرور نکاح کرے اور جو کوئی نکاح کے اخراجات پر قادر نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ ایسا کرنے سے شہوت کمزور ہو جاتی ہے اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ آغاز میں حرارت غریزی کے جوش مارنے سے شہوت زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن چند روزے رکھنے کے بعد شہوت کے کمزور ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے، کیونکہ جماع کی خواہش کھانے پینے کے تابع ہوتی ہے، وہ کھانے پینے سے قوی اور اس سے پرہیز کرنے سے کمزور ہوتی ہے، اس لیے زیادہ روزے رکھنے سے شہوت خودبخود کمزور ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:153/4) (2) واضح رہے کہ نکاح کی تین اقسام ہیں: ٭ اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت ہے۔ شریعت نے اس کی ترغیب دی ہے۔ ٭ غلبۂ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ کی حفاظت اور نگاہ میں حیا آتا ہے۔ ٭ جب اسے بیوی پر ظلم کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ ہے کیونکہ نکاح کی مشروعیت مصالح کے تابع ہے، ایسے حالات میں انسان کو روزے رکھنے چاہئیں۔ (3) واضح رہے کہ روزہ اللہ کی رضا کے لیے اس وقت ہوتا ہے جب اس سے کوئی دینی یا دنیوی مصلحت وابستہ نہ کی جائے، زنا سے بچنے کے لیے روزہ رکھنا اس اخلاص کے منافی ہے، یہ ایک اعتراض ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی عبادت پر کوئی دینی غرض مرتب ہوتی ہو تو اس کا ارادہ کرنا اخلاص کے لیے نقصان دہ نہیں۔ زنا سے بچنا جو روزہ رکھنے پر مرتب ہوتا ہے اس سے بھی اللہ کی رضا مقصود ہے۔ تو یہ غرض روزے کی اصلی غرض کے منافی نہیں ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ جارہا تھا۔ آپ نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی صاحب طاقت والا ہو تو اسے نکاح کرلینا چاہئے کیوں کہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیوں کہ وہ اس کی شہوت کو ختم کردیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Alqama: While I was walking with 'Abdullah he said, "We were in the company of the Prophet (ﷺ) and he said, 'He who can afford to marry should marry, because it will help him refrain from looking at other women, and save his private parts from looking at other women, and save his private parts from committing illegal sexual relation; and he who cannot afford to marry is advised to fast, as fasting will diminish his sexual power."