باب : ( سورۃ بقرہ میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ سحری کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ کھل جائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری ( صبح صادق ) سیاہ دھاری یعنی صبح کاذب سے پھر پورے کرو اپنے روزے سورج چھپنے تک
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And eat and drink until the white thread of dawn appears to you distinct from the black.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( اس سلسلے میں ) براءؓ کی ایک روایت بھی نبی کریم ﷺسے مروی ہے
1917.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ﴾ ’’کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگا، سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے۔‘‘ لیکن اس کے بعد مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھےاس لیے کچھ لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے پاؤں سے سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیتے پھر کھاتے رہتے حتیٰ کہ ان کا رنگ ایک دوسرے سے ممتاز ہوجاتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل فرمائے تو انھیں پتہ چلا کہ اس سے مراد دن اور رات ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ کے واقعہ سے قبل اس آیت کا نزول ہو چکا تھا، لیکن انہیں تفصیل کا علم نہ تھا، صرف انہوں نے آیت سنی اور اپنی سمجھ کے مطابق عمل کیا کیونکہ ایک دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آب بیتی سنائی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن حاتم! کیا میں نے تجھے من الفجر کے الفاظ نہیں سنائے تھے؟‘‘ حضرت عدی ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اس تفصیل کو بھول گیا تھا، اس لیے جو ہوا سو ہوا۔ (2) علامہ نووی ؒ نے فرمایا: پاؤں سے سفید اور سیاہ دھاگا باندھنے کا فعل ایسے لوگوں سے سرزد ہوا جو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ قرآنی اسلوب سے ناواقف تھے۔ ممکن ہے کہ ان کی لغت میں سیاہ اور سفید دھاگے کا استعمال رات اور دن کے لیے معروف نہ ہو۔ (فتح الباري:172/4)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1863
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1917
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1917
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1917
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس حدیث کو قبل ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (دیکھیے حدیث: 1915)
( اس سلسلے میں ) براءؓ کی ایک روایت بھی نبی کریم ﷺسے مروی ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ﴾’’کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگا، سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے۔‘‘ لیکن اس کے بعد مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھےاس لیے کچھ لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے پاؤں سے سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیتے پھر کھاتے رہتے حتیٰ کہ ان کا رنگ ایک دوسرے سے ممتاز ہوجاتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل فرمائے تو انھیں پتہ چلا کہ اس سے مراد دن اور رات ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ کے واقعہ سے قبل اس آیت کا نزول ہو چکا تھا، لیکن انہیں تفصیل کا علم نہ تھا، صرف انہوں نے آیت سنی اور اپنی سمجھ کے مطابق عمل کیا کیونکہ ایک دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آب بیتی سنائی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن حاتم! کیا میں نے تجھے من الفجر کے الفاظ نہیں سنائے تھے؟‘‘ حضرت عدی ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اس تفصیل کو بھول گیا تھا، اس لیے جو ہوا سو ہوا۔ (2) علامہ نووی ؒ نے فرمایا: پاؤں سے سفید اور سیاہ دھاگا باندھنے کا فعل ایسے لوگوں سے سرزد ہوا جو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ قرآنی اسلوب سے ناواقف تھے۔ ممکن ہے کہ ان کی لغت میں سیاہ اور سفید دھاگے کا استعمال رات اور دن کے لیے معروف نہ ہو۔ (فتح الباري:172/4)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت براء بن عازب ؓ نے نبی کریم ﷺ سے ایک روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل بن سعد نے ( دوسری سند امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ آیت نازل ہوئی ” کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری، سیاہ دھاری سے کھل جائے “ لیکن من الفجر ( صبح کی ) کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ جب روزے کا ارادہ ہوتا تو سیاہ اور سفید دھاگہ لے کر پاؤں میں باندھ لیتے اور جب تک دونوں دھاگے پوری طرح دکھائی نہ دینے لگتے، کھانا پینا بند نہ کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے پھر لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس سے مراد رات اور دن ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ابتداءمیں صحابہ ؓ میں سے بعض لوگوں نے طلوع فجر کا مطلب نہیں سمجھا اس لیے وہ سفید اور سیاہ دھاگے سے فجر معلوم کرنے لگے مگر جب من الفجر کا لفظ نازل ہوا تو ان کو حقیقت کا علم ہوا۔ سیاہ دھاری سے رات کی اندھیری اور سفید دھاری سے صبح کا اجالا مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Saud: When the following verses were revealed: 'Eat and drink until the white thread appears to you, distinct from the black thread' and of dawn was not revealed, some people who intended to fast, tied black and white threads to their legs and went on eating till they differentiated between the two. Allah then revealed the words, 'of dawn', and it became clear that meant night and day.