Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Taking a bath by a person observing Saum (fast))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک کپڑا ترکر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں ( غسل کے لیے ) گئے اور ابن عباس نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں ( زبان پر رکھ کر ) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود ؓ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہوا اور انس ؓ نے کہا کہ میرا ایک آبزن ( حوض کا پتھر کا بنا ہوا ) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم ﷺ سے یہ منقول ہے کہ آپ ﷺنے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ دن میں صبح اور شام ( ہر وقت ) مسواک کرے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین ہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔تشریح : حضرت ابن مسعودؓ کے اثر مذکورہ فی الباب کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے، ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے اس کا رد کیا جس نے روزہ دار کے لیے غسل مکروہ رکھا ہے کیوں کہ اگر منہ میں پانی جانے کے ڈر سے مکروہ رکھا ہے تو کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے سے بھی اس کا ڈر رہتا ہے۔ اوراس لیے اگر مکروہ رکھا ہے کہ روزہ میں زیب و زینت اور آرائش اچھی نہیں تو سلف نے کنگھی کرنا، تیل ڈالنا روزہ دا رکے لیے جائز رکھا ہے۔ حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابن مسعودؓ کے اثرکو کس نے وصل کیا نہ قسطلانی نے بیان کیا۔ ( وحیدی )
1932.
پھر ہم حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔
تشریح:
(1) ان احادیث سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں: ٭ روزے کی حالت میں غسل جنابت فجر کے بعد نماز سے پہلے کرنا۔ ٭ روزے دار کے لیے غسل کا جائز ہونا۔ شریعت مطہرہ میں ہر ممکن بندوں کی سہولت پیش نظر رکھی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوۂ مبارکہ سے عملاً یہ آسانیاں پیش کی ہیں۔ (2) ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے صحبت کرتے، اگر سوتے سوتے صبح ہو جاتی تو حالت جنابت میں روزہ رکھ لیتے، پھر غسل کر کے نماز پڑھتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنابت روزے کے منافی نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1875.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1932
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1932
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1932
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ روزہ دار کے لیے غسل کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ عنوان کے تحت پیش کردہ آثار قیاس اور دلالت النص کے ذریعے سے عنوان پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ تر کپڑے کا جسم پر ڈالنا، حمام میں داخل ہونا، ہنڈیا سے کچھ چکھ لینا یا کسی اور چیز کا ذائقہ لینا، کلی کرنا، ٹھنڈک حاصل کرنا، تیل لگانا، کنگھی کرنا، بھرے حوض میں غوطہ لگانا، مسواک کرنا اور سرمہ لگانا وغیرہ تمام امور اگرچہ باطن کی طرف اثر کرتے ہیں لیکن روزے دار کے لیے یہ سب جائز ہیں تو غسل کرنا بطریق اولیٰ جائز ہو گا کیونکہ پانی کا معاملہ ان سب سے ہلکا ہے کہ وہ بدن پر نہیں ٹھہرتا۔ اب ہم مذکورہ آثار کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو اپنی التاریخ الکبیر (5/147) میں اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف (4/65) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ایک دوسرے اثر کے مرجوح ہونے کا اشارہ کیا ہے جس میں ہے کہ بحالت روزہ کپڑے تر کرنا مکروہ ہے۔ ٭ امام شعبی کے عمل کو مصنف ابن ابی شیبہ (4/105) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ اور اس حمام سے مراد ٹھنڈے پانی کا تالاب ہے جس میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے داخل ہوا جاتا ہے۔ ٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (4/76) میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کھانے کا ذائقہ معلوم کرنے کے لیے اسے منہ میں ڈالا جا سکتا ہے تو نہانے سے کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔ ٭ امام حسن بصری کے اثر کو مصنف عبدالرزاق (4/206) میں متصل سند سے ذکر کیا گیا ہے، اس کی مناسبت بھی عنوان سے ظاہر ہے۔ لیکن اس میں تبرید (ٹھنڈک حاصل کرنے) کا ذکر نہیں ہے، تاہم اس سلسلے میں ایک مرفوع حدیث مروی ہے کہ ایک صحابی نے عرج مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بحالت روزہ گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2365) ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے المعجم الکبیر: (10/84) میں موصولاً اور مرفوعاً ذکر کیا ہے۔ امام ابوبکر ہیثمی نے مجمع الزوائد (3/167) میں اسے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس کی سند میں یمان بن سعید ضعیف راوی ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بحالت روزہ زیب و زینت مکروہ ہے لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ ٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے عمل تبرید کو قاسم بن ثابت نے غریب الحدیث میں متصل سند سے بیان کیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ پانی کے بھرے ہوئے حوض سے گرمی سے تحفظ کے لیے داخل ہو جاتے تھے۔ ٭ مسواک کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز ظہر کے لیے جاتے تو روزے کی حالت میں مسواک کرتے تھے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:4/57) ٭ اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی بیان کی جاتی ہے، حضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت روزہ کئی مرتبہ مسواک کرتے دیکھا ہے۔ (جامع الترمذی،الصوم،حدیث:725) اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے لیکن عاصمہ بن عبیداللہ کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ امام بخاری نے اسے منکر کہا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/92) ٭ امام ابن سیرین کے اثر کو بھی ابن ابی شیبہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:4/59) ٭ سرمہ لگانے سے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابو داود نے اپنی سنن میں متصل سند سے بیان کیا ہے کہ وہ روزے کی حالت میں سرمہ لگاتے تھے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2378) اسی طرح حضرت حسن بصری کا اثر بھی مصنف عبدالرزاق (4/208) میں منقول ہے، فرماتے ہیں: روزے دار کے لیے سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابراہیم نخعی کا اثر بھی سعید بن منصور نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:4/198) اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں بحالت روزہ سرمہ لگایا۔ (سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1678) اگرچہ امام بوصیری نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ (صحیح سنن ابن ماجہ،الصیام،حدیث:1360) اگر یہ روایت ضعیف بھی ہو تو بھی سرمہ لگانے کی ممانعت پر کوئی حدیث مروی نہیں، لہذا روزے کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے۔ بعض حضرات نے ایک ضعیف روایت کی بنا پر روزے دار کے لیے سرمہ لگانا مکروہ قرار دیا ہے۔ وہ روایت یہ ہے کہ روزہ دار سرمہ لگانے سے پرہیز کرے۔ (سنن ابی داؤد،الصوم،حدیث:2377) اس حدیث کے متعلق امام ابوداود نے خود وضاحت کی ہے کہ امام یحییٰ بن معین کے کہنے کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے۔ بہرحال روزے کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے اور اس کی ممانعت کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔ واللہ اعلم
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک کپڑا ترکر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں ( غسل کے لیے ) گئے اور ابن عباس نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں ( زبان پر رکھ کر ) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود ؓ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہوا اور انس ؓ نے کہا کہ میرا ایک آبزن ( حوض کا پتھر کا بنا ہوا ) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم ﷺ سے یہ منقول ہے کہ آپ ﷺنے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ دن میں صبح اور شام ( ہر وقت ) مسواک کرے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین ہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔تشریح : حضرت ابن مسعودؓ کے اثر مذکورہ فی الباب کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے، ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے اس کا رد کیا جس نے روزہ دار کے لیے غسل مکروہ رکھا ہے کیوں کہ اگر منہ میں پانی جانے کے ڈر سے مکروہ رکھا ہے تو کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے سے بھی اس کا ڈر رہتا ہے۔ اوراس لیے اگر مکروہ رکھا ہے کہ روزہ میں زیب و زینت اور آرائش اچھی نہیں تو سلف نے کنگھی کرنا، تیل ڈالنا روزہ دا رکے لیے جائز رکھا ہے۔ حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابن مسعودؓ کے اثرکو کس نے وصل کیا نہ قسطلانی نے بیان کیا۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
پھر ہم حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں: ٭ روزے کی حالت میں غسل جنابت فجر کے بعد نماز سے پہلے کرنا۔ ٭ روزے دار کے لیے غسل کا جائز ہونا۔ شریعت مطہرہ میں ہر ممکن بندوں کی سہولت پیش نظر رکھی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوۂ مبارکہ سے عملاً یہ آسانیاں پیش کی ہیں۔ (2) ان احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے صحبت کرتے، اگر سوتے سوتے صبح ہو جاتی تو حالت جنابت میں روزہ رکھ لیتے، پھر غسل کر کے نماز پڑھتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنابت روزے کے منافی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنا کپڑا تر کیا اور اسے روزے کی حالت میں خود پر ڈال لیا۔ امام شعبی ہ بحالت روزہ حمام میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہنڈیا یاکوئی چیز چکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری نے کہا: روزہ دار کے لیے کلی کرنا اور ٹھنڈک لینا جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی بحالت روزہ ہوتو تیل لگا سکتا ہے اور کنگھی بھی کرسکتا ہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا: میرا ایک حوض ہے اس میں بحالت روزہ غوطہ زن ہوتاہوں۔ نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا جاتا ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں مسواک کی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: دن کے پہلے اور آخری حصے میں مسواک کرسکتا ہے لیکن اپنے تھوک کو نہ نگلے حضرت عطاء نے کہا: اگر کسی نے تھوک نگلا تو میں نہیں کہتا کہ اس نے روزہ افطار کردیا۔ حضرت ابن سیرین نے کہا تازہ مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان سے عرض کیا گیا : مسواک کا ذائقہ ہوتا ہے۔ انھوں نےفرمایا: پانی کا بھی ذائقہ ہوتا ہے، حالانکہ تم اس سے کلی کرتے ہو۔ حضرت انس ؓ حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نخعی روزہ دار کے لیے سرمہ لگانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
اس کے بعد ہم ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی ہر دو مسئلے ثابت ہوئے روزہ دار کے لیے غسل کا جائز ہونا اور بحالت روزہ غسل جنابت فجر ہونے کے بعد کرنا چوں کہ شریعت میں ہر ممکن آسانی پیش نظر رکھی گئی ہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے عملاً یہ آسانیاں پیش کی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then he went to Um Salama and she also narrated a similar thing.