باب : سورۃ بقرہ کی اس آیت کا بیان وعلی الذین یطیقونہ الایۃ
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Those who can fast with difficulty have to feed a poor person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عمر اور سلمہ بن اکوع نے کہا کہ اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہے ” رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا لوگوں کے لیے ہدایت بن کر اور راہ یابی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے روشن دلائل کے ساتھ، پس جو شخص بھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا مسافر تو اس کو چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی بعد میں پوری کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی اس بات پر بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم احسان مانو، ابن نمیر نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا او ران سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں ( جب روزے کا حکم ) نازل ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا، چنانچہ بہت سے لوگ جو روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلاسکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حالانکہ ان میں روزے رکھنے کی طاقت تھی، بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ پھر اس اجازت کو دوسری آیت و ان تصوموا الخ یعنی ” تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو “ نے منسوخ کر دیا اور اس طرح لوگوں کو روزے رکھنے کا حکم ہو گیا۔
1949.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے ﴿فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾ پڑھا اور فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ناسخ آیت کو متعین نہیں کیا گیا، البتہ طبری کی روایت کے مطابق اس کے بعد والی آیت ناسخ قرار دی گئی ہے۔ سنن بیہقی میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ روزہ رکھنے سے زیادہ مانوس نہیں تھے کیونکہ وہ مہینے میں صرف تین روزے رکھنے کے عادی تھے، اس بنا پر ان پر ایک ماہ کے روزے تکلیف اور مشقت کا باعث تھے، پھر انہیں رخصت تھی کہ اگر کوئی کسی مسکین کو روزہ رکھوا دے تو وہ خود اسے ترک کر دے، پھر اس رخصت کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:200/4) (2) حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے۔ وہ فرماتے ہیں: یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4505) یعنی ان کے نزدیک يُطِيقُونَهُ کے معنی ’’عدم استطاعت‘‘ کے ہیں۔ اس مقام پر اس فعل میں سلب ماخذ کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1892
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1949
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1949
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1949
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر اسی عنوان کے تحت متصل سند سے ذکر کیا ہے اور اسے کتاب التفسیر میں بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4506) اسی طرح سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے اثر کو بھی کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4506) اسی طرح سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے اثر کو بھی کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: (وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ) "اور جو اس کی طاقت رکھتے ہیں وہ ایک مسکین کو بطور فدیہ کھانا کھلا دیں۔" (البقرۃ184:2) تو اس کے بعد جو روزہ افطار کرنا چاہتا وہ فدیہ دے دیتا حتی کہ وہ آیت نازل ہوئی جو اس کے بعد ہے اور اس نے اسے منسوخ کر دیا۔ (صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4507)
ابن عمر اور سلمہ بن اکوع نے کہا کہ اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہے ” رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا لوگوں کے لیے ہدایت بن کر اور راہ یابی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے روشن دلائل کے ساتھ، پس جو شخص بھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا مسافر تو اس کو چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی بعد میں پوری کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی اس بات پر بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم احسان مانو، ابن نمیر نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا او ران سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں ( جب روزے کا حکم ) نازل ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا، چنانچہ بہت سے لوگ جو روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلاسکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حالانکہ ان میں روزے رکھنے کی طاقت تھی، بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ پھر اس اجازت کو دوسری آیت و ان تصوموا الخ یعنی ” تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو “ نے منسوخ کر دیا اور اس طرح لوگوں کو روزے رکھنے کا حکم ہو گیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے ﴿فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾ پڑھا اور فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ناسخ آیت کو متعین نہیں کیا گیا، البتہ طبری کی روایت کے مطابق اس کے بعد والی آیت ناسخ قرار دی گئی ہے۔ سنن بیہقی میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ روزہ رکھنے سے زیادہ مانوس نہیں تھے کیونکہ وہ مہینے میں صرف تین روزے رکھنے کے عادی تھے، اس بنا پر ان پر ایک ماہ کے روزے تکلیف اور مشقت کا باعث تھے، پھر انہیں رخصت تھی کہ اگر کوئی کسی مسکین کو روزہ رکھوا دے تو وہ خود اسے ترک کر دے، پھر اس رخصت کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:200/4) (2) حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے۔ وہ فرماتے ہیں: یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4505) یعنی ان کے نزدیک يُطِيقُونَهُ کے معنی ’’عدم استطاعت‘‘ کے ہیں۔ اس مقام پر اس فعل میں سلب ماخذ کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت کودرج ذیل آیت نے منسوخ کردیا ہے:
"شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ّّّّّّّّّّ.......وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ" "ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔۔۔ تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ "ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ہم سے بیان کیا ہے کہ جب رمضان کے روزے رکھنے کا حکم نازل ہوا تو لوگوں پر بہت شاق(گراں) گزرے۔ ان میں جو صاحب حیثیت ہوتا وہ ہرروز کسی مسکین کوکھانا کھلاکر روزہ ترک کردیتا۔ اس کی انھیں رخصت تھی۔ پھر اسے آیت:
"وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ "
"روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے"سے منسوخ کردیا گیا اور انھیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عیاش نے بیان کیا، ان سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ( آیت مذکور بالا ) ﴿فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ﴾ پڑھی اور فرمایا یہ منسوخ ہے۔
حدیث حاشیہ:
پورا ترجمہ آیت کا یوں ہے ”اور جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن روزہ رکھنا نہیں چاہتے وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، پھر جو شخص خوشی سے زیادہ آدمیوں کو کھلائے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا جو لوگوں کو دین کی سچی راہ سمجھاتا ہے اور اس میں کھلی کھلی ہدایت کی باتیں اور صحیح کو غلط سے جدا کرنے کی دلیلیں موجود ہیں، پھر اے مسلمانو ! تم میں سے جو کوئی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا اور اس حکم کی غرض یہ ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ نے جو تم کو دین كى سچی راہ بتلائی اس کے شکریہ میں اس کی بڑائی کرو اور اس لیے کہ تم اس کا احسان مانو“ شروع اسلام میں و علی الذین یطیقونه (البقرة :184) اترا تھا اور مقدور والے لوگوں کو اختیار تھا وہ روزہ رکھیں خواہ فدیہ دیں پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور صحیح جسم والے مقیم پر روزہ رکھنا فمن شهد منکم الشهر(البقرة :185) سے واجب ہو گیا۔ ( وحیدی ) بعض نے کہا وعلی الذین یطیقونه کے معنی یہ ہیں جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے گو مقیم اور تندرست ہیں مثلاً ضعیف بوڑھے لوگ تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اس صورت میں یہ آیت منسوخ نہ ہوگی اور تفصیل اس مسئلہ کی تفسیروں میں ہے۔ ( وحیدی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): Ibn 'Umar (RA) recited the verse: "They had a choice either to fast or to feed a poor person for every day, and said that the order of this Verse was cancelled.