Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Can somebody else observe Saum instead of the dead?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسن بصری نے کہا کہ اگر اس کی طرف سے ( رمضان کے تیس روزوں کے بدلے ) تیس آدمی ایک دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔
1952.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ’’جو شخص مرجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اسکا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ ابن وہب نے عمرو بن حارث سے بیان کرنے میں موسی بن اعین کی متابعت کی ہے۔ اور یحیٰ بن ایوب نے بھی اس حدیث کو ابن ابی جعفر سے روایت کیا ہے۔
تشریح:
(1) حدیث میں عليه صيام سے مراد نفل روزے نہیں بلکہ ایسے روزے ہیں جو اس پر فرض ہوں، مثلا: ٭ رمضان کے روزے۔ ٭ نذر کے روزے۔ ٭ کفارے کے روزے۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے فرض روزے ہوں تو اس کے وارث کو ان روزوں کا اہتمام کرنا ہو گا۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے: وارث اگر چاہے تو روزے رکھے۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ (التلخیص الحبیر:457/6) امام بیہقی "خلافیات" میں لکھتے ہیں: اس مسئلے میں محدثین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح الباری:4/246) (2) بعض حضرات کا موقف ہے کہ وارث، میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بجائے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ ان کی دلیل حسب ذیل روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1757) لیکن یہ روایت ضعیف ہونے کی بنا پر قابل حجت نہیں۔ (ضعیف سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:389) بعض روایات میں ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الصیام:279/1، حدیث:688) اس سے مراد عام نفل روزے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1895
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1952
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1952
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1952
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس اثر کو امام دارقطنی نے موصولاً بیان کیا ہے، الفاظ یہ ہیں: ایک آدمی فوت ہوا جس کے ذمے تیس روزے تھے تو اس کے لیے تیس آدمی جمع کیے جائیں، وہ ایک دن کا روزہ رکھ لیں تو میت کی طرف سے کافی ہیں۔ لیکن صورت مذکورہ میں تسلسل نہیں ہو گا اور ایسا کرنا ضروری بھی نہیں۔ (فتح الباری:4/246)
اور حسن بصری نے کہا کہ اگر اس کی طرف سے ( رمضان کے تیس روزوں کے بدلے ) تیس آدمی ایک دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ’’جو شخص مرجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اسکا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘ ابن وہب نے عمرو بن حارث سے بیان کرنے میں موسی بن اعین کی متابعت کی ہے۔ اور یحیٰ بن ایوب نے بھی اس حدیث کو ابن ابی جعفر سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں عليه صيام سے مراد نفل روزے نہیں بلکہ ایسے روزے ہیں جو اس پر فرض ہوں، مثلا: ٭ رمضان کے روزے۔ ٭ نذر کے روزے۔ ٭ کفارے کے روزے۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے فرض روزے ہوں تو اس کے وارث کو ان روزوں کا اہتمام کرنا ہو گا۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے: وارث اگر چاہے تو روزے رکھے۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ (التلخیص الحبیر:457/6) امام بیہقی "خلافیات" میں لکھتے ہیں: اس مسئلے میں محدثین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح الباری:4/246) (2) بعض حضرات کا موقف ہے کہ وارث، میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بجائے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ ان کی دلیل حسب ذیل روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1757) لیکن یہ روایت ضعیف ہونے کی بنا پر قابل حجت نہیں۔ (ضعیف سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:389) بعض روایات میں ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الصیام:279/1، حدیث:688) اس سے مراد عام نفل روزے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حسن بصری نے کہا کہ اگر میت کی طرف سے تیس آدمی ایک ہی دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن موسیٰ ابن اعین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے، ان سے محمد بن جعفر نے کہا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے، موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ابن وہب نے بھی عمرو سے روایت کیا اوریحییٰ بن ایوب سختیانی نے بھی ابن ابی جعفر سے۔
حدیث حاشیہ:
اہل حدیث کا مذہب باب کی حدیث پر ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے اور شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ امام شافعی سے بیہقی نے بہ سند صحیح روایت کیا کہ جب کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلاف مل جائے تو اس پر عمل کرو اور میری تقلید نہ کرو، امام مالک اور ابوحنیفہ ؒ نے اس حدیث صحیح کے برخلاف یہ اختیار کیا کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ( وحیدی ) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی : مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں ایک میت کے اعتبار سے کیوں کہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں ان کو اسی بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں سے کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا اس سے فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ نفوس رنج و الم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ میں یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں اس شخص کی قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کئے مر گیا تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہئے۔ ( حجة اللہ البالغة )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever died and he ought to have fasted (the missed days of Ramadan) then his guardians must fast on his behalf."