باب : پے درپے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: To observe Saum (fast) continuously)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( ابوالعالیہ ) تابعی سے ایسا منقول ہے انہوں نے کہا اللہ نے فرمایا روزہ رات تک پورا کرو ( جب رات آئی تو روزہ کھل گیا یہ ابن ابی شیبہ نے نکالا ) کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا ” پھر تم روزہ رات تک پورا کرو۔ “ نبی کریم ﷺنے صوم وصال سے ( بحکم خداوندی ) منع فرمایا، امت پر رحمت اور شفقت کے خیال سے تاکہ ان کی طاقت قائم رہے، او ریہ کہ عبادت میں سختی کرنا مکروہ ہے۔اس حدیث کو خود امام بخاری نے آخر باب میں حضرت عائشہ ؓ سے وصل کیا اور ابوداؤد نے ایک صحابی ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے حجامت اور وصال سے منع فرمایا۔ اپنے اصحاب کی طاقت باقی رکھنے کے لیے، طے کا روزہ رکھنا منع ہے مگر سحر تک وصال جائز ہے جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے۔ اب اختلاف ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے یا کراہت کے طور پر۔ بعض نے کہا جس پر شاق ہو تو اس پر تو حرام ہے اور جس پر شاق نہ ہو اس کے لیے جائز ہے۔ ( وحیدی )
1964.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے مہربانی کرتے ہوئے متواتر روزے رکھنے سے منع فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو پے درپے رکھتے ہیں؟آپ نے فرمایا: ’’میں تمہاری مثل نہیں ہوں؟مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ ابو عبداللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ راوی حدیث عثمان بن ابی شیبہ نے’’مہربانی کرتے ہوئے‘‘کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں۔
تشریح:
(1) وصال کے روزے رکھنے کے متعلق جمہور محدثین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ متواتر روزے رکھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’میں اس سلسلے میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔‘‘ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعیان امت کے لیے وصال حرام ہے، البتہ صبح تک وصال کی رخصت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے لیکن خود پڑھا کرتے تھے، اسی طرح آپ متواتر روزے رکھنے سے منع کرتے تھے اور خود رکھا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1280) (3) رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ بہت تہذیب یافتہ اور مؤدب تھے۔ ان کا یہ کہنا کہ آپ وصال کا روزہ رکھتے ہیں بطور اعتراض نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس خصوصیت کا سبب معلوم کرنا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسی روحانی طاقت عطا فرمائی ہے کہ مجھے بھوک یا پیاس محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ ابن ابی حاتم نے بشیر بن خصاصیہ کی بیوی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: میں نے دو دن اور دو رات کا مسلسل روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تو میرے خاوند نے اس سے منع کر دیا اور یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسے عیسائیوں کا عمل قرار دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اس طرح روزہ رکھو جس طرح تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ رات آنے تک روزہ رکھو، رات ہونے پر فورا افطار کر لو۔‘‘(مسندأحمد، وتفسیرابن أبي حاتم:347/6) (4) امام بخاری ؒ نے آخر میں فرمایا: میرے شیخ عثمان بن ابی شیبہ نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت پر شفقت کرتے ہوئے وصال کے روزوں سے منع کیا ہے جبکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنے شیخ سے سنے تھے لیکن کبھی انہیں بیان کرتے اور کبھی ان کے بغیر ہی حدیث ذکر کر دیتے۔ (فتح الباري:260/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1907
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1964
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1964
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1964
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
وصال سے مراد یہ ہے کہ انسان ارادی طور پر دو یا زیادہ دنوں تک روزہ افطار نہ کرے، رات کو کچھ کھائے اور نہ سحری کے وقت کچھ تناول کرے بلکہ مسلسل روزے سے رہے، ایسا کرنا منع ہے۔ (مسنداحمد:3/170) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین چیزیں بیان کی ہیں: ٭ وصال کا روزہ اس لیے منع ہے کہ اس میں رات کا بھی روزہ رکھا جاتا ہے جبکہ رات، محل روزہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ) (البقرۃ187:2) "پھر روزے کو رات تک پورا کرو۔" یعنی رات اتمام روزہ کے لیے حد فاصل ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے سے منع کیا ہے، یہ تعلیق امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب پر شفقت کرتے ہوئے وصال کے روزے سے منع کیا ہے، (صحیح البخاری،الصوم،حدیث:1964) نیز ان کی قوت کو باقی رکھنے کے لیے اس سے منع کیا ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2374) ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کرنے سے بھی منع فرمایا ہے جو طاقت سے باہر ہو، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ قصۂ وصال کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر مہینہ طویل ہوتا تو میں وصال کا روزہ ترک نہ کرتا تاکہ بال کی کھال اتارنے والے تکلیف مالا یطاق برداشت کرنے سے باز آ جائیں۔" (صحیح البخاری،التمنی،حدیث:7241) بہرحال وصال کا روزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، دوسروں کے لیے ایسا کرنا منع ہے۔ ہاں، اگر کسی نے وصال کرنا ہے تو اسے سحری تک ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباری:4/260)
( ابوالعالیہ ) تابعی سے ایسا منقول ہے انہوں نے کہا اللہ نے فرمایا روزہ رات تک پورا کرو ( جب رات آئی تو روزہ کھل گیا یہ ابن ابی شیبہ نے نکالا ) کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا ” پھر تم روزہ رات تک پورا کرو۔ “ نبی کریم ﷺنے صوم وصال سے ( بحکم خداوندی ) منع فرمایا، امت پر رحمت اور شفقت کے خیال سے تاکہ ان کی طاقت قائم رہے، او ریہ کہ عبادت میں سختی کرنا مکروہ ہے۔اس حدیث کو خود امام بخاری نے آخر باب میں حضرت عائشہ ؓ سے وصل کیا اور ابوداؤد نے ایک صحابی ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے حجامت اور وصال سے منع فرمایا۔ اپنے اصحاب کی طاقت باقی رکھنے کے لیے، طے کا روزہ رکھنا منع ہے مگر سحر تک وصال جائز ہے جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے۔ اب اختلاف ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے یا کراہت کے طور پر۔ بعض نے کہا جس پر شاق ہو تو اس پر تو حرام ہے اور جس پر شاق نہ ہو اس کے لیے جائز ہے۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے مہربانی کرتے ہوئے متواتر روزے رکھنے سے منع فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو پے درپے رکھتے ہیں؟آپ نے فرمایا: ’’میں تمہاری مثل نہیں ہوں؟مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ ابو عبداللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ راوی حدیث عثمان بن ابی شیبہ نے’’مہربانی کرتے ہوئے‘‘کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) وصال کے روزے رکھنے کے متعلق جمہور محدثین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ متواتر روزے رکھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’میں اس سلسلے میں تمہارے جیسا نہیں ہوں۔‘‘ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعیان امت کے لیے وصال حرام ہے، البتہ صبح تک وصال کی رخصت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے لیکن خود پڑھا کرتے تھے، اسی طرح آپ متواتر روزے رکھنے سے منع کرتے تھے اور خود رکھا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1280) (3) رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ بہت تہذیب یافتہ اور مؤدب تھے۔ ان کا یہ کہنا کہ آپ وصال کا روزہ رکھتے ہیں بطور اعتراض نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس خصوصیت کا سبب معلوم کرنا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسی روحانی طاقت عطا فرمائی ہے کہ مجھے بھوک یا پیاس محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ ابن ابی حاتم نے بشیر بن خصاصیہ کی بیوی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: میں نے دو دن اور دو رات کا مسلسل روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تو میرے خاوند نے اس سے منع کر دیا اور یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسے عیسائیوں کا عمل قرار دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اس طرح روزہ رکھو جس طرح تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ رات آنے تک روزہ رکھو، رات ہونے پر فورا افطار کر لو۔‘‘(مسندأحمد، وتفسیرابن أبي حاتم:347/6) (4) امام بخاری ؒ نے آخر میں فرمایا: میرے شیخ عثمان بن ابی شیبہ نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت پر شفقت کرتے ہوئے وصال کے روزوں سے منع کیا ہے جبکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنے شیخ سے سنے تھے لیکن کبھی انہیں بیان کرتے اور کبھی ان کے بغیر ہی حدیث ذکر کر دیتے۔ (فتح الباري:260/4)
ترجمۃ الباب:
جس نے کہا: رات کو روزہ نہیں ہوتا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ""پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ "اور نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو مہربانی اور شفقت کرتے ہوئے اس سے منع فرمایا، نیز عبادت میں شدت اختیار کرنا مکروہ ہے۔
وضاحت: ۔وصال سے مراد یہ ہے کہ انسان ارادی طور پر دو یا زیادہ دنوں تک روزہ افطار نہ کرے رات کو کچھ کھائے نہ سحری کے وقت کچھ تناول کرے بلکہ مسلسل روزے سے رہے۔ ایسا کرنا منع ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے پے در پے روزہ سے منع کیا تھا۔ امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے، صحابہ ؓم نے عرض کی کہ آپ ﷺ تو وصال کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔ عثمان نے ( اپنی روایت میں ) ” امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے “ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو طے کا روزہ رکھنا حرام نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت پر شفقت کے خیال سے اس سے منع فرمایا جیسے قیام اللیل میں آپ چوتھی رات کو برآمد نہ ہوئے اس ڈر سے کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور ابن ابی شبیہ نے بإسناد صحیح عبداللہ بن زبیر ؓ سے نکالا کہ وہ پندرہ پندرہ دن تک طے کے روزے رکھتے۔ اور خود آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ طے کے روزے رکھے۔ اگر حرام ہوتے تو آپ ﷺ اپنے اصحاب ؓ کو کبھی نہ رکھنے دیتے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) forbade Al-Wisal out of mercy to them. They said to him, "But you practice Al-Wisal?" He said, "I am not similar to you, for my Lord gives me food and drink. "