باب : جو طے کے روزے بہت رکھے اس کو سزا دینے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The punishment for the person who practises Al-Wisal very often.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو حضرت انسؓ نے جناب نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
1966.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’وصال کا روزہ رکھنے سے اجتناب کرو۔‘‘ آپ نے دو مرتبہ ایسا فرمایا۔ آپ سے عرض کیا گیا: آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جب میں رات گزارتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے لیکن تم اتنا ہی کام اپنے ذمے لو جتنی تم میں طاقت ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اللہ تعالیٰ کے کھلانے اور پلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اندر اس قدر قوت پیدا کر دیتا ہے کہ کھانے پینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے صحابۂ ؓ کو وصال کے روزے سے منع فرمایا تو انہوں نے اسے ممانعت تنزیہی پر محمول کیا، ان کا مقصد آپ کی مخالفت نہیں تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں وصال کے روزے رکھتا جاتا ہوں حتی کہ تم اس سے عاجز آ جاؤ گے اور مجبور ہو کر تم تخفیف کا مطالبہ کرو گے جیسا کہ آپ نے طائف کے قلعے کا محاصرہ ختم کر دینے کا حکم دیا لیکن صحابۂ کرام ؓ نے اسے اپنی بزدلی پر محمول کیا، بالآخر انہیں سخت زخم آئے تو مجبور ہو کر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے محاصرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ (فتح الباري:263/4) مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وصال کے روزے سے اجتناب کرو، وصال کے روزے سے احتراز کرو۔‘‘ (مسندأحمد:315/2) بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے تین مرتبہ اس بات کو دہرایا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:82/3) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی روایت میں اختصار ہے۔ (فتح الباري:263/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1909
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1966
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1966
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1966
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھار وصال کا روزہ رکھ لینا منع نہیں کیونکہ اس میں مشقت نہیں ہوتی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عیسائیوں کی عادت قرار دیا ہے، لہذا اس کے متعلق حکم امتناعی برقرار ہے، خواہ بکثرت روزے رکھے جائیں یا کبھی کبھار وصال کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التمنی،حدیث:7241)
اس کو حضرت انسؓ نے جناب نبی کریم ﷺسے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’وصال کا روزہ رکھنے سے اجتناب کرو۔‘‘ آپ نے دو مرتبہ ایسا فرمایا۔ آپ سے عرض کیا گیا: آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جب میں رات گزارتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے لیکن تم اتنا ہی کام اپنے ذمے لو جتنی تم میں طاقت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اللہ تعالیٰ کے کھلانے اور پلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اندر اس قدر قوت پیدا کر دیتا ہے کہ کھانے پینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے صحابۂ ؓ کو وصال کے روزے سے منع فرمایا تو انہوں نے اسے ممانعت تنزیہی پر محمول کیا، ان کا مقصد آپ کی مخالفت نہیں تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں وصال کے روزے رکھتا جاتا ہوں حتی کہ تم اس سے عاجز آ جاؤ گے اور مجبور ہو کر تم تخفیف کا مطالبہ کرو گے جیسا کہ آپ نے طائف کے قلعے کا محاصرہ ختم کر دینے کا حکم دیا لیکن صحابۂ کرام ؓ نے اسے اپنی بزدلی پر محمول کیا، بالآخر انہیں سخت زخم آئے تو مجبور ہو کر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے محاصرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ (فتح الباري:263/4) مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وصال کے روزے سے اجتناب کرو، وصال کے روزے سے احتراز کرو۔‘‘ (مسندأحمد:315/2) بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے تین مرتبہ اس بات کو دہرایا۔ (المصنف لابن أبي شیبة:82/3) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی روایت میں اختصار ہے۔ (فتح الباري:263/4)
ترجمۃ الباب:
اسے حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے دوبار فرمایا، تم لوگ وصال سے بچو ! عرض کیا گیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں، اس پر آپ نے فرمایا کہ رات میں مجھے میرا رب کھلاتا اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔ پس تم اتنی ہی مشقت اٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said twice, "(O you people) Be cautious! Do not practice Al-Wisal." The people said to him, "But you practice Al-Wisal?" The Prophet (ﷺ) replied, "My Lord gives me food and drink during my sleep. Do that much of deeds which is within your ability."