Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Saum (fasting) in the month of Sha'ban)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1970.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو!اتنی ہی عبادت کرو جو قابل برداشت ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اکتا جاؤ گے۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو وہی نماز پسند تھی جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر پابندی سے ادا ہو، چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؓ سال بھر کسی پورے مہینے کے نفلی روزے نہیں رکھتے تھے، صرف ماہ شعبان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے اور اسے رمضان کے ساتھ ملا دیتے تھے۔ (مسندأحمد:311/6) اس روایت کا مطلب ہے کہ اس مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ شعبان کے چند ایام کے علاوہ پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2722(1156)) ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سے مدینہ طیبہ تشریف لائے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھتے تھے۔ (فتح الباري:272/4) بعض علماء نے ان روایات کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شعبان کے پورے مہینے کے روزے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ روایات میں اكثر شهر اور كل شهر کی تطبیق يوں ہے کہ کبھی آپ ﷺ پورے ماہ کے روزے رکھتے اور کبھی کچھ روزے ترک کر دیتے۔ جن روایات میں رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب صرف دو تین روزے استقبال رمضان کے طور پر رکھے جائیں۔ (2) ایک روایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ شعبان کے ہیں۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:663) لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ (إرواءالغلیل، حدیث:889) پھر یہ روایت صحیح مسلم کی ایک روایت کے معارض ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کے بعد ماہ محرم کے روزے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔‘‘(فتح الباري:272/4) ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ اس لیے کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ اس مہینے میں اللہ کی طرف بندوں کے عمل اٹھائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں میرے عمل جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں بحالت روزہ ہوں۔‘‘(مسندأحمد:201/5) واضح رہے کہ جس شخص کی پہلے سے روزہ رکھنے کی عادت نہیں وہ نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2336) یعنی کوئی شخص شروع شعبان سے تو روزے نہیں رکھتا اور پندرہ دن گزرنے کے بعد روزے رکھنا شروع کر دیتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر شروع شعبان سے روزے رکھتا ہے تو پھر جائز ہے۔ (3) آخری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتدال کے ساتھ مناسب اوقات میں جو کام پابندی سے کیا جائے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے وگرنہ دوڑ کر چلنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھا کر گر پڑتا ہے۔ اعتدال کے ساتھ کام کرنے سے نفس میں پاکیزگی اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1913
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1970
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1970
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1970
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو!اتنی ہی عبادت کرو جو قابل برداشت ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اکتا جاؤ گے۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو وہی نماز پسند تھی جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر پابندی سے ادا ہو، چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؓ سال بھر کسی پورے مہینے کے نفلی روزے نہیں رکھتے تھے، صرف ماہ شعبان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے اور اسے رمضان کے ساتھ ملا دیتے تھے۔ (مسندأحمد:311/6) اس روایت کا مطلب ہے کہ اس مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ شعبان کے چند ایام کے علاوہ پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2722(1156)) ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سے مدینہ طیبہ تشریف لائے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھتے تھے۔ (فتح الباري:272/4) بعض علماء نے ان روایات کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شعبان کے پورے مہینے کے روزے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ روایات میں اكثر شهر اور كل شهر کی تطبیق يوں ہے کہ کبھی آپ ﷺ پورے ماہ کے روزے رکھتے اور کبھی کچھ روزے ترک کر دیتے۔ جن روایات میں رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب صرف دو تین روزے استقبال رمضان کے طور پر رکھے جائیں۔ (2) ایک روایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ شعبان کے ہیں۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:663) لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ (إرواءالغلیل، حدیث:889) پھر یہ روایت صحیح مسلم کی ایک روایت کے معارض ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کے بعد ماہ محرم کے روزے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔‘‘(فتح الباري:272/4) ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ اس لیے کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ اس مہینے میں اللہ کی طرف بندوں کے عمل اٹھائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں میرے عمل جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں بحالت روزہ ہوں۔‘‘(مسندأحمد:201/5) واضح رہے کہ جس شخص کی پہلے سے روزہ رکھنے کی عادت نہیں وہ نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2336) یعنی کوئی شخص شروع شعبان سے تو روزے نہیں رکھتا اور پندرہ دن گزرنے کے بعد روزے رکھنا شروع کر دیتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر شروع شعبان سے روزے رکھتا ہے تو پھر جائز ہے۔ (3) آخری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتدال کے ساتھ مناسب اوقات میں جو کام پابندی سے کیا جائے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے وگرنہ دوڑ کر چلنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھا کر گر پڑتا ہے۔ اعتدال کے ساتھ کام کرنے سے نفس میں پاکیزگی اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ شعبان سے زیادہ اور کسی مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے، شعبان کے پورے دنوں میں آپ ﷺ روزہ سے رہتے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ عمل وہی اختیار کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ ( ثواب دینے سے ) نہیں تھکتا۔ تم خود ہی اکتا جاؤ گے۔ نبی کریم ﷺ اس نماز کو سب سے زیادہ پسند فرماتے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے ہمیشہ پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اگرچہ اورمہینوں میں بھی آپ ﷺ نفل روزے رکھا کرتے تھے مگر شعبان میں زیادہ روزے رکھتے کیوں کہ شعبان میں بندوں کے اعمال اللہ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ نسائی کی روایت میں یہ مضمون موجود ہے۔ ( وحیدی ) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) never fasted in any month more than in the month of Sha'ban. He used to say, "Do those deeds which you can do easily, as Allah will not get tired (of giving rewards) till you get bored and tired (of performing religious deeds)." The most beloved prayer to the Prophet (ﷺ) was the one that was done regularly (throughout the life) even if it were little. And whenever the Prophet (ﷺ) offered a prayer he used to offer it regularly .